ایک او رطفیلیہ parasite))
قائد اعظم نے کہا تھا "سول سروس پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں ۔وزیرِ اعظم بدلتے رہتے ہیں اور وزراءکرام بھی آتے جاتے رہتے ہیں مگرآپ لوگ اپنی جگہ پر مستحکم ہیں ۔آپ کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ "
نئے پاکستان میں سیاست دان نا پختہ جس کے مقابلے میں سول آفیسر برطانوی راج کا تربیت یافتہ ،قائد اعظم نے بھی بیور کریسی کی اس طاقت کو شروع سے ہی بھانپ لیا اورسیاست دان کے ہاتھوں بیور کریٹ کی طاقت کا استعمال یا بیور کریسی کا سیاست میں عمل دخل ان دونوں امکانات کو روکنے لئے جا بجا بیو ر کریٹس کو آگاہ کیا کہ بلیک لسٹ ہو جانا مگر کسی سیاست دان کے لئے اصول سے پیچھے نہ ہٹنا ۔مگر ہوا کیا ؟
لیاقت علی خان جو کہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے مگر بیور کریسی نے انکے زمانے سے ہی طاقت کے مظاہرے شروع کر دئے تھے ۔ چوہدری محمد علی سیکرٹری جنرل پاکستان نے کیبنٹ کمیٹی تشکیل دی ،جس میں سب بیور کریٹس پالیسیاں بناتے اور کیبنٹ میں رسمی طور پر پاس ہونے کےلئے پیش کر دی جاتیں ۔ مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنیوالے اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر سیاست دان کے مقابلے میں ذیادہ قابل اور ہوشیار سمجھتے تھے ۔ ایوب خان کی جماعت بیور و کر یٹس ہی کی جماعت سمجھی جاتی تھی ۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ فاطمہ جناح کو جس دھاندلی سے ہرایا گیا ،اس کی سازشیںبھی انہی دفاتر میں کی گئیں اور پھربیور کریسی پر سب سے پہلا اور شدید وار بھی اسی دور میں ہوا ۔ جب ملٹری بیور کریسی اور سول بیور کریسی کے درمیان طاقت کا مقابلہ جاری تھا تو ایوب خان نے سول سکرنینگ کی رپورٹ کی آڑ میں کئی سول آفیسرز کی تننزلی اور بر خاستگی کے آرڈ جاری کئے ، اس دن سے یہ تلوا ر بیور کریسی کے سر پر لٹک رہی ہے ۔ آقا کی حکم کی بجا آوار ی اور عوام سے ایک خاص قسم کا فاصلہ رکھنا ، نوکر شاہی کی یہ عادت نئی نہ تھی بلکہ برطانوی دور سے چلی آرہی تھی پھر یہ ادارہ مستحکم ہوتا گیا گو کہ نفرادی طور پر بیور کریٹ آتے جاتے رہے ۔گورنر جنرل غلام محمد ، محمد علی بوگرہ ، چوہدری محمد علی اور سکندر مرزا یہ سب بیور کریٹس ۱۱ سال تک صدر ، وزیر ِ اعظم رہے ۔جب ہم سیاست کی نماز میں چار فرض آرمی کے پڑھتے ہیں توچار ان بیور کریٹس کے بھی پڑھ لیا کریں ۔ انفرادی طور پر تننزلی اور برخاستگی کے خوف نے اس طاقتور جن کو ایک جادوگر بنا دیا ۔ اس نے سیاسی یا فوجی جو بھی حکومت رہی ، اسکے اشارے پر سر خم کرنے اور اس تابعداری کے عوض ایک غیر مشر وط طاقت کو حاصل کرنے کا فن جان لیا ۔
بھٹو غریب آدمی کیلئے سماجی انصاف کا نعرہ اور سوشلسٹ ساتھی لے کر سیاست کے میدان میں اترا تھا ۔ 1971میں آرمی سے اختیارات جب سیاسی حکومت کو منتقل ہوئے تو وزیرِ اعظم بھٹو نے بیور کریسی کے بارے میں کہا "یہ افسر رات کو سوتے ہوئے ڈریں گے "انہوں نے 1300سر کاری ملازمین کو ملازمت سے فارغ کر دیا سابقہ حکمرانوں کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے ، بیور کریسی کو اپنے ہاتھ میں کرنے کیلئے انفرادی طور پر لوگوں کو نکال باہر کیا مگر اس پر انحصار شروع کر کے بیور کریسی کو ایک ادارے کے طور پر مزید طاقت بخشی ۔ بعد میں بھٹو صاحب خوشامد کی اس غلام گردش میں ایسے پھنسے کے انکے بہت قریبی ساتھ مولانا کوثر نیازی اپنی کتاب "اور لائن کٹ گئی "میں لکھتے ہیں "میں یہ بات آج بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایوب خان کے دس سالہ جشن کا مذاق اڑانے والے بھٹو نے آخر خود کیوں سرکاری زرائع ابلاغ اور سرکاری ملازمین کے مرتب کردہ پروگراموں پر مشتمل "ہفتوں"کو عوامی رابطے کا ذریعہ مان لیا تھا "
بھٹو اور عوام کے درمیان افسر شاہی کا یہ پردہ آگیا تھا ، 1977کے الیکشن میں غیر ضروری دھاندلی بھی راﺅ رشید کا ایک کارنامہ ہے ۔ضیا الحق ، بے نظیر ، نواز شریف ، بے نظیر ، نواز شریف ،مشرف ، اور پھر زرداری ہر دور میں بیور کریسی کا کھلا کردار سب کے سامنے ۔ حکومت سیاسی ہو یا فوجی ،ہر حکمران نے بیور کریٹس اپنی مرضی کے لگانے ہیں ۔ سلمان فاروقی بے نظیر کے زمانے میں بے تاج بادشاہ تھا تو نوز شریف کے سیف الرحمن نے نیب سیل کے نام پر اپنے دور میں اس کا جسم سگریٹوں سے داغ دیا تھا۔ زرداری دور میں عملی طور پر صدارات کے محل میں بیٹھ کرسترسال کی عمر میں بھی ڈوریاں ہلانے والا پھر سلمان فاروقی تھا ۔قائد اعظم نے ٹھیک کہا تھا حکومتیں آتی جاتی رہیں گی بیور کریسی مستحکم رہے گی ۔ سیاسی وابستگیاں عروج پر ،آج مسلم لیگ نون ہے تو سب کو پتہ ہوتا ہے کون کون اوپر آئے گا ، کل پی پی پی کی حکومت تھی تو سب کو پتہ تھا کون کون اعلی عہدوں پر فائز ہوگا ۔بیور کریٹس آتے جاتے رہتے ہیں ،اپنی باری کا بڑے تحمل سے انتظار کرتے ہیں۔بیور کریسی وہیں کی وہیں کھڑی ہے ۔ ایک 22گریڈ کا افسر بجلی ، پانی ، گیس ، پٹرول ، گھر کا کرایہ ، پرائیویٹ کار ، سرکاری کار سب مل ملا کر مہینے کے ایک ملین روپے حکومت ِ وقت سے لیتا ہے ۔ بنیادی تنخواہ ایک لاکھ روپیہ ہے ۔جو سپیشل ڈیوٹی پر تعینات ہوجائیں ان کی تنخواہ ماہانہ چھ ملین روپے بنیادی تنخواہ پلس مراعات کی مد میں ملتی ہے ۔ان سرکاری نوکروں کو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا چاہیئے ،مگر یہ سیاست دان یا فوج کے ساتھ مل کر عوام کو لوٹنے والوں میں سے ہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ یہ معاشرے کی کریم ، مقابلے کے امتحان کے بعد ہم پر حکومت کرنے کو مسلط ہوتی ہے ۔مگر کچھ کریں بھی تو سہی ۔ ادارے تباہ ہوگئے ؟کس بات کے انتظامی امور کی یہ تنخوائیں لے رہے ہیں ۔
میں عام بیرون ِ ملک پاکستانی ، 22گریڈ کے نہ ناز پتہ نہ نخرے ۔ایک پارٹی میں اوور سیرز پاکستانیز کی وزارت کی 22ویںگریڈکی فیڈرل سیکرٹری سے ملاقات ہوگئی ۔ 2008میں یہ نئی وزارت زرداری صاحب کی دوست نوازی کی تسکین اور کھیل تماشوں کیلئے شامل کی گئی ۔محترمہ سے پوچھا کام کیا ہے اس وزارت کا ؟ فرمایا کہ کوئی بیرونِ ملک پاکستانی پلاٹ پاکستان میں لے ، اس پر قبضہ نہ ہوجائے ، اس طرح کی چیزیں ۔ پانچ سال میں اس وزارت نے بہت کچھ کر لیا ہوگا ، مگر انہوں نے جو بھی کیا ہو اسکے نتیجے میں کم از کم کسی ایک بھی بیرون ِ ملک پاکستانی میں پاکستان کے اندر پلاٹ خریدنے کا اعتماد پیدا نہیں ہوسکا ۔ مزید معلومات لینے کیلئے ہمارے حقوق کے تحفظ کیلئے اور کیا کیا ہو رہا ہے ، ہمیں تو کچھ بھی نہیں پتہ، معلوم ہوا کہ انہوں نے نگران وزیر ِ اعظم کو ایک بیرون ِ ملک پاکستانیوں کیلئے پہلی نیشنل پالیسی پیش کی تھی، وہ پالیسی کیا ہے ؟معلوم ہوا کہ خاتون ایک ٹرسٹ جو اوور سیز پاکستانیوں کیلئے پنشن پلان لیکر آیا ہے اس کی ممبر بھی ہیں ، وہ کیا پلان ہیں؟ یہ سب باتیں انہی سے پوچھنا تھیں تاکہ یہاں رہنے والے پاکستانیوں کو پتہ چلے کہ وہ لاوارث نہیں انکے حقوق کیلئے پاکستان میں بہت کچھ ہو رہا ہے ۔محترمہ نے ہنسی خوشی انٹرویو کیلئے حامی بھر لی۔جس دن انٹرویو اس صبح ساڑھے دس بجے دوبارہ ٹیکسٹ میسنجگ سے کنفرم کیا۔ شام چھ بجے ریکارڈنگ اور دو بجے مجھے کسی تیسرے آدمی کے ذریعے پیغام آرہا ہے کہ میں انٹرویو نہیں دے سکتی ، سوال : کیوں نہیں ، جواب : میں قانونی طور پر ا سکی مجاز نہیں ۔قابلیت کا یہ عالم کہ 22 گر یڈ کی آفیسر اور اپنی جاب سے متعلقہ قوانین اور ضابطوں سے ناآشنا ۔میں جو بیرون ِ ملک عام پاکستانی ہونے کے ناطے یہ حق رکھتی ہوں کہ میرے نام پر جووزارت ،جو ادارہ تنخواہ لے رہا ہے وہ میرے لئے کیا کر رہا ہے ، مگر سفارش ، خوشامد اور اقربا پروری سے کی گئی ایسی تعیناتیاںجن میں قابلیت غائب ،ادائیں ، نخرہ ، اور شاہانہ مزاج موجود ، نے مجھ سے میرا یہ پیدائشی حق بھی چھین لیا ۔ ان خاتون کے اعزاز میں شہر کے امراءنے پارٹیاں کیں ، پاکستانی قونصلیٹ کے کمیونٹی کی فلاح والے شعبے نے عشائیہ دیا ، جس میںسنا گیا ہے کہ شہر کے نام اور دام والے لوگ تھے ۔ نوکر شاہی ، شاہ کی غلام اور امیر طبقے کا حصہ ہی رہی ۔عوام کی فلاح و بہبود کا کام کر نے کیلئے ایک بالکل الگ ڈیپارٹمنٹ بنا دیا جائے جس کا تعلق عوام سے رہنے دیا جائے۔ حکمرانوں کی جی حضوری کرنے، چور دروازوں سے محلوں کے دروازوں تک پہنچنے والے امرا کے درمیان گھومنے پھرنے اور عوام کو اپنے سے کوسوں دور رکھنے والے بیور کریٹس اسی طرح قابلِ مذمت ہیں جس طرح ڈکٹیٹر اورکر پٹ سیاست دان ، انہیں کہیں کال کوٹھریوں میں پھینک دیا جائے تو بہت بہتر ہے ۔یہ ملک قسم قسم کے طفیلئے کب تک پالے گا یا کب تک پال سکتا ہے ؟