گھڑی
گھڑی
میاں نواز شریف کی مبینہ 46کروڑ روپے کی گھڑی کا معاملہ دبنے اور لوگوں کی یاد سے محو ہونے لگتا ہے تو اسے کسی نہ کسی طریقے سے پھر اٹھا دیا جاتا۔ پیپلز پارٹی کی ایم این اے شازیہ مری نے اتنا انکشاف کیا تھا کہ حلف برداری کے موقع پر ایک ممبر نے 4.46 ملین کی گھڑی پہن رکھی تھی۔ نجی ٹی وی چینل نے اس پر تحقیق کی توپتہ چلا کہ گھڑی پوش ممبر میاں نواز شریف تھے۔ کسی کے لباس، گھڑی ،گھر اور گاڑی پر کسی کو تنقید کا قطعی حق اور اختیار نہیں ہے۔ شازیہ مری کو اپنے ذرائع سے گھڑی کی مالیت کا علم ہوا یا اپنی جوہر شناس نظروں سے اندازہ ہو گیا ، توکیا یہ دنیا کو بتانا ضروری تھا؟ 46کروڑ کی گھڑی یا اس سے کم و بیش قیمت کا لباس اور جائز تعیشات اگر کوئی بھی شخص اپنی جیب یعنی حق حلال کی کمائی سے خریدتا تو اس پر اخلاقی، قانون اور اصولی طور پر کوئی قدغن نہیں، البتہ کسی کی رگوں سے خون نچوڑ کر ہزار ڈیڑھ ہزار کی تسبیح کی خریداری کا بھی نوٹس لینا اور محاسبہ کرنا جائز ہی نہیں فرض بھی ہے ۔
نواز شریف کی مہنگی گھڑی قصہ پارینہ بن رہی تھی کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ق کی ایم پی اے ثمینہ خاور حیات نے اس کا تذکرہ برسبیل تذکرہ کیا یا اپنی امارت کا سکہ جمانے کیلئے انہوں نے کہا ” اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینے کیلئے 1کروڑ تیس لاکھ کی گاڑی پر آتی ہوں جبکہ میری گھڑی کی قیمت 21لاکھ روپے ہے، حکومتی ارکان کو میری گاڑی اور گھڑی پر اعتراض ہے لیکن وہ قومی اسمبلی میں بیٹھے ایک اہم شخص کے بارے میں بات نہیں کرتے جو 45 کروڑ کی گھڑی پہن کر تقریر کرتے ہیں“۔۔۔ اب بتائیے میاں نواز شریف کی گھڑی پر کوئی کیا بات کرے۔
قبل ازیں مسلم لیگ ن کے رہنما سنیٹر پرویز رشید نے شاید میاں نواز شریف سے اپنی قربت ظاہر کرنے کیلئے فرما دیا تھا کہ کوئی ایک کروڑ روپیہ دے اور 46کروڑ والی گھڑی لے جائے۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب نے پرویز رشید کو قیمت پچاس لاکھ اسی طرح بتائی ہو جس طرح سعودی عرب گئے نوجوان نے اپنے گھر دوست کے ہاتھ 20 ہزار روپے کے دو کمبل بھجوائے۔ ساتھ یہ بھی کہلا بھیجا کہ یہ دس ہزار روپے کے آئے ہیں تاکہ دکاندار والدین اسے فضول خرچی نہ سمجھیں۔ اگلے خط میں والدین نے لکھا ”بیٹا شاباش مزید چار کمبل بھیج دو وہ ہم نے 12 ہزار کے بیچ دئیے ہیں“
پرویز رشید ایک کروڑ میں گھڑی نیلام کر رہے ہیں۔ خریدار دکاندار کا موڈ دیکھ کر آئے گا اور بھاﺅ لگائے گا۔ میاں صاحب کے سر کا ایک ایک بال بھی لاکھ لاکھ روپے سے کم کا نہیں ہے ۔ گرا ہوا بال نیلامی میں رکھ دیا جائے آج کل خریدار ہزار ہوں گے،یہ وہی ہیںجو شہباز پاکستان کے پیچھے کھڑے تھے ”تین سال میں بجلی ختم کر دیں گے“ کہنے پر جوش و جذبے سے کہ اُٹھے” ان شاءاللہ“ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں مشرف پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا اس پر مسلم لیگی حلقے کہتے ہیں پوری پارلیمنٹ ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ پارلیمنٹ ایم این ایز اور سنیٹرز کا مجموعہ ہے۔ آج کے مجموعے میں وہ بھی ہیں جنہوں نے مشرف کے 12 اکتوبر کے شب خون کی سترہویں ترمیم کے ذریعے توثیق کی،ان میں سے بہت سے پارلیمنٹ اور کئی کابینہ میں بھی ہیں۔ خدانخواستہ میاں صاحب پر پھر برا وقت آیا تو انکے پیچھے کھڑے ہونیوالے پارلیمنٹیرین میاں صاحب کے پیچھے مڑ کر دیکھنے تک بہت پیچھے ہٹ چکے ہوں گے۔
ہاں تو بات گھڑی کی ہو رہی تھی۔
گھڑی وقت دیکھنے کیلئے استعمال میں لائی جاتی ہے۔ عام آدمی اپنی اوقات کے مطابق پچاس روپے کی گھڑی سے کام چلا لیتا ہے۔ کوئی اپنی حیثیت کے مطابق لاکھ دو لاکھ اور کروڑوں کی گھڑی لگا لیتا ہے۔ 46کروڑ کی گھڑی روزانہ تین ٹائم سونے کا انڈا نہیں دیتی، اس میں ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ یہی ہیرے جواہرات ایک جوتے پر لگے تھے تو وہ 4 کروڑ روپے میں فروخت ہوئے۔ جنیوا میں یاقوت جڑی انگوٹھی 67 لاکھ ڈالر یعنی پاکستان میں سکہ رائج الوقت کے مطابق 67 کروڑ روپے میں نیلام ہوئی ،اس کو جوتے کی نوک پر سجا دیا جائے یا گدھے کے گلے میں لٹکا دیا جائے تو اس کی قیمت بھی67 کروڑ ہو جائے گی۔ ویسے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ہیرے کی مکمل انگوٹھی تیار کی گئی ہے۔ اس کی تیاری میں برازیل سے لایا گیا 150 قیراط ہیرا استعمال ہوا۔ اس کی چمک دمک اور جھلملاہٹ سے آنکھیں خیرہ ہو تی ہیں۔ اس انگوٹھی کی قیمت سات آٹھ کروڑ ڈالر ہے یعنی کم از کم بھی ساڑھے 7 ارب روپے ہے۔
میاں صاحب اتنے فضول خرچ نہیں کہ 46 کروڑ کی گھڑی خریدیں تاہم تحائف قبول کرنے کے سلسلے میں وہ بخیل واقع نہیں ہوئے۔ شایدکسی نے گھڑی تحفہ میں دی ہو۔ میاں صاحب اپنے اوپر کسی کا احسان نہیں رکھتے، نوازشات کے معاملے میں بڑی شہرت رکھتے ہیں لیکن صوابدیدی فنڈ سے۔ ویسے آج کل بچت مہم جاری ہے۔ کئی صوابدیدی فنڈز ختم اور وزیراعظم ہاﺅس کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے۔ ایسے اقدامات سے خزانے کی صحت پر کوئی اچھا یا برا اثر نہیں پڑتا۔ہاں واقعی نہیں پڑتا! بڑا شیر روزانہ 3 چھوٹا دو اور ہر وزیر مشیر ایک ایک بکرا کھا جائے ،یہ قوم کیلئے ناقابل قبول اور تکلیف دہ نہیںہے۔ اندرون و بیرون ملک مناسب دوروں کی بھی پرواہ نہیں، صرف کرپشن روک دی جائے تو ستے خیراں۔ گزشتہ حکومت کے ایمانداری کی شہرت رکھنے والے ایک وزیر نے بھی ولایت میں 70 ارب روپے کے اثاثے بنائے ،باقی کے کھلائے ہوئے گل اندرون و بیرون ملک خوشبو پھیلائے ہوئے ہیں۔ سالانہ 4500 ارب روپے کی سرکاری کارندوں کی کرپشن الگ ہے ۔ گزشتہ پانچ سال میں اعلیٰ سطح پر کی گئی لوٹ مار کا حساب لے لیا جائے اور کارندوں کی کرپشن کے سوراخ بند کر دئیے جائیں تو تمام اندرونی اور بیرونی قرضے ادا ہونے کے بعد ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے وافر رقم بچ سکتی ہے، جس سے لوڈشیڈنگ ختم اور بجلی کے نرخ تین چار روپے یونٹ تک آسانی سے لائے جا سکتے ہیں۔ قوم خوشحال ہو گی تو دہشت گردی و لاقانونیت کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ملک میں امن کی روشنی اجالے بکھیرے گی تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنا آسان ہو گا البتہ وہ یہ سوال کر سکتے ہیں حضور آپ کی اولادیں کیا پاکستان میں ہی سرمایہ کاری کر رہی ہیں؟