غداری کیس : مشرف کی گرفتاری کی استدعا مسترد‘ پنڈورا بکس کھلنے کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے : سپریم کورٹ
اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس چلانے کا طریقہ کار پر حکومتی موقف جمع کرانے کے بعد عدالت نے غداری کیس میں سابق صدر کو گرفتارکرنے کی استدعا مسترد کردی جبکہ پرویز مشرف کے وکیل ایڈووکیٹ ابراہیم ستی نے سابق صدر کی جانب سے کیس میں اپنے اعتراضات عدالت میں جمع کرا دئیے۔ بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ہم پنڈورا باکس کھلنے کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے، نتائج سے آگاہ ہیں۔ عدالت کے نزدیک کسی کا ذاتی فعل نہیں آئین اور قانون مقدم ہے۔ پرویزمشرف تسلی رکھیں، کسی کو بدگمان نہیں ہونا چاہیے، فیئرٹرائل کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ جمعرات کو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک عدالت میں پیش ہوئے اور پرویز مشرف کےخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے وفاق کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ درخواست پر سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کیلئے وزیراعظم کی جانب سے سیکرٹری داخلہ کو دی گئی ہدایات بھی عدالت میں پیش کیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف تحقیقات کی مانیٹرنگ کیلئے کمشن تشکیل دیا جائے گا۔ سنگین غداری کے ایکٹ کی تحقیقات ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں ہے۔ 3 نومبر کے اقدامات کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم جلد تحقیقات کریگی۔ تحقیقات مکمل ہوتے ہی خصوصی عدالت قائم کر دی جائیگی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے سے متعلق تحقیقات غیر معینہ مدت کے لئے نہیں ہو گی، وقت متعین کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت قائم کی جائے گی اور جلد سے جلد تحقیقات مکمل کی جائے گی۔ خصوصی عدالت کے قیام اور تحقیقات کا وقت متعین کرنے پر دو اعتراضات آئے، خصوصی عدالت کے قیام سے متعلق چیف جسٹس سے مشاورت ہو گی۔ انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ انتقامی کارروائی عمل میں نہ لاتے ہوئے آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی اور پرویز مشرف کو صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا۔ جس پر پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے عدالت سے استدعا کی کہ میرے موکل کے اعتراضات کو بھی نظر میں رکھا جائے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ صبر کریں۔ عدالت اس بات کو یقینی بنائیگی کہ آپ کے موکل کو انصاف ملے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے غداری کیس میں حکومتی جواب پر اپنے تحفظات سپریم کورٹ میں جمع کروائے۔ پرویز مشرف کی جانب سے ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے متفرق درخواستوں کی صورت میں تحفظات عدالت میں جمع کروائے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ نے 5 صفحات پر مشتمل سابق صدر کا اعتراضات پر مبنی خط عدالت میں جمع کرا یا۔ جواب میں پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ انہیں موجودہ عدلیہ سے انصاف اور انتظامیہ سے غیرجانبداری کی توقع نہیں، حکومت کے موجودہ سربراہ 12 اکتوبر 1999ءکے واقعے سے براہ راست متاثر ہوئے جبکہ کیس عدالتوں میں ہونے کے باوجود ان کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ پرویزمشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے کہا کہ ان کے م¶کل کو عدالتوں سے انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس غداری کیس پر اثرانداز نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ تاثر نہیں ملنا چاہئے کہ غداری کیس میں سپریم کورٹ شکایت کنندہ ہے۔ ایسا ہوا تو یہ فیئر ٹرائل کے بنیادی حق کے منافی ہو گا۔ عدالت فیصلہ صادر کرنے سے پہلے میرے جواب بھی ملحوظ رکھے۔ فیئر ٹرائل کا حق ملے تو پرویز مشرف کو غداری کیس کا کوئی خوف نہیں۔ امید ہے کہ عدلیہ میرے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ اس موقع پر غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی گرفتاری کی استدعا کی گئی جو عدالت نے مسترد کر دی۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ فیصلہ مناسب وقت پر سنایا جائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ فیئر ٹرائل ملک اور عدلیہ کی ساکھ کیلئے ضروری ہے، فیئر ٹرائل اور غیر جانبدار عدلیہ ہو گی تو حقائق اپنی زبان سے بولیں گے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ آج خصوصی عدالت کے قیام اور تحقیقات کا وقت متعین کرنے کے بارے میں دو اعتراضات آئے ہیں، عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ وقت متعین کیا جائے گا، حکومت کی کمٹمنٹ عدالت کے ریکارڈ پر ہے، خصوصی عدالت کے قیام سے متعلق چیف جسٹس سے مشاورت ہو گی، کارروائی آئین کے تقدس کو پیش نظر رکھ کر کی جائے گی۔ جسٹس جواد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کینگرو کورٹس کا وقت ختم ہو گیا، اب آئین اور قانون کا بولا بالا ہونا چاہئے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تین نومبرکے اقدامات کی کھلی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ممکن ہے کہ تین نومبر کے اقدامات سنگین غداری کے زمرے میں آتے ہوں جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ عام فوجداری مقدمہ نہیں کہ جہاں پہلے خانہ نمبر ایک اور بعد میں خانہ نمبر دو کے ملزم کے خلاف کارروائی ہو یہ کیس عام عدالت میں چلانے کی مجاز نہیں بلکہ یہ مقدمہ عدالت میں چلنا چاہئے۔ شکایت کنندہ کے شکایت کے اندراج سے قبل مشرف کی حراست کا حکم جاری نہیں کر سکتے۔ یہ نجی نہیں ریاستی شکایت ہے۔ ریاست چاہے تو پہلے مشرف کو حراست میں لے سکتی ہے۔ ملزم کے خلاف مروجہ قانون کے تحت ہی کارروائی ہونی چاہئے۔ مشرف اس ملک کے شہری ہیں ان کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے جبکہ مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ موجودہ عدلیہ اور انتظامیہ سے کسی انصاف کی توقع نہیں۔ مشرف کو بہت پریشانی اٹھانا پڑ رہی ہے لہٰذا منیر اے ملک عدلیہ بحران میں تحریک کے رہنما اور آج اٹارنی جنرل ہیں جبکہ ملک کے سربراہ بھی 12 اکتوبر کے اقدام سے متاثر ہیں ایسے میں انصاف کون کرے گا۔ انہوں نے یہ اعتراض عدالت کے روبرو ایک متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرائی۔ عدالت نے انہیں بتایا کہ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے انصاف کیا جائیگا۔