نانگا پربت دہشت گردی ‘ جسٹس مقبول باقر پر حملہ
کسی بھی دین دھرم میں جائے عبادت بہرحال دارالامن ہوتی ہے اور انسان دنیا کی فریب کاریوں اور ظالموں کی چیرہ دستیوں سے فرار اختیار کرتے ہوئے عبادت خانوں کا رُخ کرتا ہے۔ مسلمانوں کا دارالخیر اور جائے سکون، امن و آشتی کا مرکز مسجد ہے جہاں پر مسلمان رب السلام کی بارگاہ¿ امن و سلامتی میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ پہلے تو مسجد کی بات کچھ اور تھی اب تو ہر ہفتے کے ہر دن اخبارات کی جلی سرخیوں میں مسجد پر خودکش حملے اور بموں سے بربادی کا ذکر ہوتا ہے۔ مزارات پر دینی ثقافت اور روحانیت کا سلسلہ و تعلیم و تربیت ہوتا ہے وہاں پر بھی یہ سلسلہ ٹوٹا ہُوا دکھایا جاتا ہے۔ مدرسہ بھی اب شرّ و فساد کی زد میں آ رہا ہے۔ عبات گاہیں اور مراکز تربیت کو برباد کرنا دراصل تصور مذہب کو یکسر غلط قرار دینے کیلئے ایک عملی مشق ہے تاکہ ملحدوں کے ان نظریات کی تائید ہو جائے جو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ....
معبدوں کے چراغ گل کر دو
قلبِ انسان میں میں اندھیرا ہے
پاکستان کا ہر خطہ فی نفسہ پاک ہے۔ اسکے لہلہاتے کھیت، اسکے بہتے دریا اور بلند قامت پہاڑ سب ہی قدرتِ خداوندی کا عطیہ ہیں۔ یہاں سے زندگی کو زندگی بنانے کی سوغات برآمد ہوتی ہیں۔ نانگا پربت تو سیاحوں کی روحوں کو چین بخشتا ہے۔ نانگا پربت دنیا بھر کے بلند نگاہ اہل ذوق کی تشنہ نظری کوسامانِ سکون عطا کرتا ہے۔ نانگا پربت ہمارے رشک آفریں اثاثوں میں سے ایک اثاثہ ہے۔ ہماری آبادیاں اور ہمارے ویرانے سب کے سب کشش و دلچسپی کی قدیم کہانیاں ہیں۔ خطہ¿ پاکستان کا ہر حصہ دنیا بھر کے اہلِ ذوق کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔ ہماری روایات نے ہمارے جغرافیائی خدوخال کو انسانی اقدار سے مربوط کر دیا ہے اور خدائے خالقِ و قدیر کی رحمتوں کا مظہر ہمارے وہ خشک پہاڑ ہیں جن کے اندر سونے کے خاموش چشمے بہتے ہیں۔ ہماری مٹی رشک جواہر ہے۔ ابلیسی جِن ہماری معاشیاتی کائنات کو برباد کرنے کے نئے بھیانک انداز اختیار کر رہا ہے۔کبھی کسی کا خیال بھی نہیں جاگا ہو گا کہ بیاباں اور بالکل ٹھنڈے خاموش نانگا پربت پر ظلم کی آگ برسا دی جائے گی اور غیر ملکی بے گناہ، بے خیال سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ حملہ آور بہت ہی سازشی اور سفاک تھے کیسی کیسی تدبیریں کیں اور کونسا لباس منتخب کیا کہ حفاظتی اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہماری خبر گیر سرکاری خفیہ تنظیموں کا دائرہ کار اتنا سمٹ گیا ہے کہ چوروں کی سرحدات بہت بڑھ گئی ہیں۔ چوروں کا شبِ خون مارنا چڑیا مارنے کے برابر ہو گیا ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ انگشت بدنداں ہیں کہ محافظوں کو موردِ الزام ٹھہرائیں یا چوروں کی چترکاری کو سببِ فساد بتائیں۔
دراصل دشمن اتنا مکار ہے کہ اس نے اپنی خفیہ قوتوں کو ہماری خفیہ قوتوں پر حاوی کر دیا ہے۔ دہشت گردی کی تاریخ گواہ ہے ہمارے جوانوں پر حملہ کرنے کیلئے دشمن ہمرنگِ زمین جال بچھاتا ہے، مکر و فریب کی کہانی کو عمل کا رنگ دیتے ہوئے وہ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کراتا ہے اور ایک ہی وقت میں اپنے بڑے اہداف حاصل کر لیتا ہے اور اب جدید اندازِ ظلم یہ ایجاد کیا ہے ہمارے اداروں میں بدنظری کی لہر بہت ہی مکارانہ انداز میں دوڑائی جاتی ہے اور ان کی بات، ان کے اہداف اور ان کے مقاصد بہت خاموش سے ہماری رگ و جاں میں سرایت کر جاتے ہیں۔ کئی میر جعفر اور میر صادق برنگ حُسن اپنے فریضہ ہائے بے حسی ادا کرتے ہیں۔ ہمارے اداروں کے نام بے بسوں اور بے کسوں کی تعبیر بیان کرتے ہیں۔ ہر بُری کارروائی ہمارا پڑوسی دشمن ہمارے نام کر دیتا ہے اور پھر دنیائے طاغوت کا بے برکت انسانیت سوز کردار ہمارے دشمن کی پیٹھ ٹھونک کر کہتا ہے کہ گھبراﺅ مت تم قتل کرو ہم پناہ گاہ فراہم کریں گے، تم حملہ کرو ہم ہتھیار فراہم کریں گے۔ اقوام متحدہ کا قصاب خانہ ہماری قومی تمناﺅں اور ہمارے ملکی حقوق کو کند چُھری سے ذبح کرنے کا جو ناہنجار فعل سرانجام دیتا ہے وہ پوری دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ اب پیغام یہ ہے کہ اگر شہری آبادیوں سے جنگلوں کا رُخ کرو گے تو ہم ہر جگہ تمہارے لئے زندگی کش ماحول پیدا کر دیں گے۔ اگر قومی سطح پر اپنے نمائندوں کو شکایت دیکر اقوام متحدہ میں بھیجو گے تو ہم تمہیں روایتی دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دیکر تمہاری کسی آواز پر کان نہیں دھریں گے ....۰
نہ تڑپنے کی اجازت ہے، نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاﺅں، یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
ابلیسی جِن مظلوم شہریوں، بے گناہوں فوجیوں اور معصوم بچوں کی لاشوں کے انبار پر فرعونی رقص کرتا ہے اور پھر چھوٹے چھوٹے بھوتنوں کو اکساتا ہے کہ جاﺅ حکمرانوں کے کان کھینچو۔ جب بھوتنے ان کے نزدیک آتے ہیں تو یہ کان دبا کر آنکھیں بچھا کر قومی غیرت کو پس پشت لٹا کر کشکول پھیلا دیتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کاروبار کیلئے کچھ غیر ملکی سرمایہ درکار ہوتا ہے کیونکہ اب قوم کی جیب خالی ہو چکی ہے اور بوسیدہ و خستہ ہو چکی ہے۔ جیب میں سو چھید ہیں اور قوم کا گریباں غیرت و حمیت کی حفاظت کی جنگ میں تار تار ہو چکا ہے۔ لیکن بھوتنے اور آسیب زدہ بھوت پرست اور پھر ان کا سرپرست ابلیسی جِن بہت جلد فطرت کی تعزیر کی زد میں آنے والا ہے
کیونکہ قرآن کا فیصلہ ازلی اور دائمی ہے
کہ شیطان کا مکر بہت ہی کمزور ہے
شیطان پسپائی کی گھاٹ میں اُتر رہا ہے۔ مکار دشمن امن کے اداروں پر اپنی نحوست کے پَر پھیلا رہا ہے۔ وہ میرے وطن کے لباس کا ہر تار نوچنا چاہتا ہے۔ کراچی میں جسٹس مقبول باقر پر دہشت گردی کا ارتکاب کر کے عدل و انصاف کو خون کی ردا اوڑھائی گئی ہے، اقتدار کے سنگھاسن پر اپنی بچگانہ تمناﺅں کو جھلانے والے ہوش کے ناخن لیں اور قومی حمیت کی چشم غیرت وا کرتے ہوئے عارضی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھیں۔