• news

نئی حکومت اور معاشی سفارت کاری ؟

میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کا حلف اٹھائے ہوئے تین ہفتے ہوچکے ہیں ، ہر نئی آنے والی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ اسکی پہلے سو دن کی کارکردگی سے لیا جاتا ہے ، مگر مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ جو صورتحال ابھی تین ہفتے میںہے سو دن بعد بھی اس سے مختلف نظر نہیں آتی ، لوگ کہتے ہیں کہ پی پی پی اپنے ©” کارناموں ©© ©©“ کی بناءپر عوامی غضب سے نہ بچ سکی تو میاں صاحب کو اقتدار مل گیا۔مگر ان گھمبیر مسائل میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پی پی پی نے میاں صاحب سے الیکشن میں ہارنے کا بدلہ اتارلیا اور میاں صاحب کو مسائل کے سمندر میں دھکیل دیا ۔ یہ بھی لکھا جارہے جو غلط نہیں کہ آخری مسکراہٹ میاں صاحب کے ہونٹوں پر صرف جیت کا اعلان ہونے کے وقت ہی دیکھی گئی تھی ، اسکے بعد حلف اٹھانا ، اسمبلی سے خطاب ، مختلف اجلاسوں سے خطاب لوگ میاں صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ ڈھونڈ رہے ہیں۔ میاں صاحب سے اقتدار میں آنے سے چند ماہ قبل عمرے کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی ۔ ان سے دریافت کیا تھا کہ ملک کو درپیش گھمبیر مسائل خاص طور بجلی کا مسئلہ ، پی آئی اے کا مسئلہ، ڈرون حملے ، معیشت کی بحالی ، امن و امان کی بحالی ان مسائل کو کیسے حل کرینگے۔ میاں صاحب کا جواب تھا ہم نے ماہرین کی کمیٹیاںبنا لی ہیں وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد فوری طور پر کام شروع کرینگی اور ہم ان پر قابو پالینگے ۔
 مگر مثال کے طور پر بجلی کے مسئلے پر جو انکے پاس ماہر ہیں وہ خواجہ آصف ہیں انہوں نے تو اقتدار آتے ہیں ہاتھ اٹھالئے ہیں اور کہہ دیا ہے بجلی کا مسئلہ فوری حل نہیں ہوسکتا وغیرہ وغیرہ،، لگتا ہے تمام مسائل میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے ہی اپنے تدبرسے حل کرنے ہیں۔ میاں صاحب کی حکومت میں آمد سے اسٹاک ایکس چنج بہتر ہوجاتی ہے کہ میاں صاحب کی پالیسیاںبحیثت ایک سرمایہ دار، نیز معاشی داﺅ پیچ کو جاننے والی ماہر ٹیم جس میں سرتاج عزیز ، اسحق ڈار جیسے لوگ شامل ہیں مگر میاں صاحب کو انہیں بھی ہدائت دینا چاہئے کہ عوام کو صحیح تصویر دکھائیں اور بہتری کی کوشش کریں اگر کریانہ کی دکان پر ٹیکس لگے گا بجٹ میں تو یہ کیسے ممکن ہے اسکا عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا؟پھر اس جھوٹے بیان کا کیا مقصد ہے کہ عوام پر ٹیکس کا اثر نہیں پڑے گا ؟؟
میاں صاحب نے پہلی تقریر میں اقتدار سنبھالتے ہی سفارت کاروںپر زور دیا ہے کہ وہ ملک کی معیشت کی بہتری کیلئے کوشش کریں اس کوشش کو انہوں نے ” اقتصادی سفارت کاری ©© “ کا نام دیا ہے ۔ یہ ایک بہت ہی بہتر اقدام ہے ۔ اس بات کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے کہ اقتصادی سفارت کاری سے یہ مطلب کوئی نہ لے ، اپنی دالیں ، چاول ، کپاس کی درآمدات بہتر بنایا جائے یہ بھی ضرورت تو ہیں مگر اسوقت شدید ترین ضرورت ہے کہ سفارت کاروں کی ڈیوٹی یہ لگائی جائے کہ وہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کار لائیں، چونکہ ملک میں توانائی کا بے حد فقدان ہے جس بناء ہماری بے شمار انڈسٹری بند پڑی ہے ، انڈسٹری بند ہونے کا مطلب ہے کہ بے روزگاری بھی ہے ۔، انڈسٹری نہ ہونے کی بناءپر برآمدات میں کمی ہے ، بے روزگاری ہونے کی بناءجرائم میں اضافہ ہے ، گھروں ، مدرسوں میں بجلی ہونے کی بناءپر ایک قدرتی ’ ڈپریشن “ طاری ہے جو لڑائی جھگڑے اور تعلقات میں خرابی پیدا کرتا ہے ، غرض اسوقت سب سے زیادہ ہمیں ضرورت صرف اور صرف ” توانائی ‘ سے متعلق پراجیکٹ کے ، اسی میں سرمایہ کاری اسوقت ملک میں سود مند ہے ، ورنہ ہمارے پاس جب تک ہماری صنعتوں کا پہیہ نہ چلے کوئی قابل برآمد اشیاء ہے نہیں جسے پوری دنیا میں مارکیٹ کیا جاسکے ۔ حکومت کی جانب سے جو ضروری اقدامات ہیں ان میں بجلی کے بلوں کی بلاامتیاز وصولی ، بجلی چوری کا خاطر خواہ بندوبست کرنا ہے ۔
 پاکستانی تاجروں کو ” راتوں رات “ امیر بننے کے خواہش سے باز رکھنا ہوگا۔ سعودی عرب میں کئی ایسے مسائل دیکھنے میں آئے ہیں کہ پہلی کھیپ سامان کی اچھی مگر بعد میں زیادہ منافع کمانے کی خواہش۔ ایک چھوٹی سے مثال آموں برآمد ہے ، جنکی سعودی عرب میں مانگ ہے ۔ چھ سات کلو کے بکس میں اوپری سطح پر اچھے آم جبکہ نچلی سطح پر خراب آم ، اگر تاجر صرف ایک ہی اوپری سطح والے آموںکی پیٹی بنائیں تو کم ازکم، اعتبار تو قائم رہے گا، ورنہ خریدار پر ا سکا تاثر اچھا نہیں پڑتا ۔ وزارت خارجہ کے لوگوں کے پاس اکثر ممالک میں زیادہ کام نہیںہے تو کیوں نہ ” غیرممالک میں پاکستان مشنز میں ” کمرشل قونصلر “ کی خانہ پوری بند کردی جائے چونکہ یہ بھی فی مشنز سالانہ کروڑوں کا خرچہ ہے ، سعودی عرب میں تو پاکستانی مشن میں حد ہی کردی گئی ہے ایک کمرشل قونصلر ہے اسکا پورا اسٹاف اور ایک نہ جانے مزید مہنگی آسامی ” ٹریڈ منسٹر برائے او آئی سی “ رکھا گیا ہے ، جو سراسر ایک بوجھ کے علاوہ کچھ نہیںگزشتہ تقریبا چار سال سے یہ پوسٹ ہے ہم نے تو نہیں دیکھا کہ او آئی سی ممالک سے تجارت میں اس آسامی نے کیا کام کیا۔جو لوگ براہ راست تجارت کررہے ہیں اس تجارت کو بھی یہ لوگ اپنی کارکردگی میں شامل کرلیتے ہیں۔ آخر میں یہ پھر تحریر کرونگا، کہ وزیر اعظم نوا ز شریف سفارت کارروں کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ توانائی کی بہتری کیلئے پاکستان میں سرمایہ کار لائیں جس سے مندرجہ بالا تمام کام آسان ہونگے ۔ تجارت اور معیشت بہتر ہوگی تو وزیر اعظم کے چہرے پر مسکراہٹ ہوگی ، اور جب وزیر اعظم کے چہرے پر مسکراہٹ ہوگی تو عوام بھی سکون کے ساتھ مسکرائیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن