ڈاروں وچھڑی کونج۔ اسحاق ڈار
ڈاروں وچھڑی کونج۔ اسحاق ڈار
الیکشن کے فوراً بعد بجٹ؟ یہ بھی کوئی صدر زرداری کی چال تھی؟ بجٹ حکومت کا امتحان ہوتا ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت اس امتحان میں پاس تو ہو گئی ہے مگر اس کی تھرڈ ڈویژن آئی ہے۔ مشکل سے 100 میں سے 33 نمبر آئے ہیں۔ یہ بجٹ اسحاق ڈار کو پیش نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے الیکشن لڑا ہی نہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں نے لوگوں سے کیا کیا وعدے کئے تھے۔ سینیٹر اسحاق ڈار کے لئے شیخ رشید نے سچ بات کر دی ہے کہ وہ اکاﺅنٹنٹ ہیں اکانومسٹ نہیں ہیں۔ شیخ صاحب بتائیں کہ جو لوگ اکانومسٹ تھے اور وزیر خزانہ تھے۔ وزیراعظم بھی ہوتے۔ انہوں نے کیا تیر مار لیا تھا۔ شوکت عزیز انگلینڈ جا کے بیٹھ گئے ہیں اور معین قریشی امریکہ سے آئے تھے وہاں واپس چلے گئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اور خارجہ امریکہ کی منظوری سے آتے ہیں۔ امریکی اکنامکس اور یورپی اکنامکس سے ہمارا یہ حال ہوا ہے۔ میں تو پینڈو کا طعنہ سن کر بھی اس بات پر قائم ہوں کہ پاکستانی اکنامکس کے بغیر کچھ نہ ہو گا۔ رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد کے نظام سے اپنے حالات اور مسائل کا حل ڈھونڈے بغیر کسی طرح کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ زکوٰة عشر بھی ہمارے ہاں ٹیکسوں کی طرح کیا گیا ہے۔ لٹیرے اور کرپٹ حکمران اور افسران زکوٰة کو بھی اپنے اور اپنے عزیزوں کے لئے خرچ کرنے لگے کہ اب کوئی زکوٰة دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امیرالمومنین حضرت ابوبکرؓ نے منکرین زکوٰة کے خلاف جہاد کیا تھا۔ اور پھر زکوٰة دینے والے گلیوں محلوں میں گھومتے تھے۔ کوئی زکوٰة لینے والا نہ تھا۔ میں کوئی مولوی نہیں ہوں صرف عشق رسول کا چراغ اپنے دل میں جلائے پھرتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی روایت کے ساتھ جڑ جاﺅ۔ جو ریاست مدینہ میں ایسی حکایت بنی تھی کہ یورپ وغیرہ نے اسے خوشحالی اور عزت مندی کی مثال بنا لیا ہے۔
برادرم اسحاق ڈار کو تھوڑی دیر کے لئے نواز شریف نے پیپلز پارٹی کو قرض کے طور پر دیا تھا۔ زرداری صاحب کے کرپٹ اور نااہل وزیراعظم گیلانی نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ مجھے بھی اسحاق ڈار نے ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے کا مشورہ دیا تھا۔ گیلانی صاحب نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کر دیئے مگر ایک بھی ایسا بجٹ پیش ہونے کی اجازت نہ دی جو امیدوں کے خلاف وزیراعظم نواز شریف نے پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ نواز شریف کو معلوم ہے کہ اسحاق ڈار سیاستدان نہیں ہیں تو انہیں کیوں بجٹ پیش کرنے دیا گیا مگر وہ نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے میرے قلم سے کئی بار اسحاق ڈار کے لئے صدر اسحاق لکھا گیا۔ پھر مجھے تسلی ہوئی کہ ڈار صاحب صدر پاکستان بننا چاہتے ہیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ کم از کم یہ تو ہو گا کہ قوم ان کے پیش کئے ہوئے بجٹوں سے بچ جائے گی۔ وہ بجٹ کو بچت سمجھتے ہیں۔ حکومت کی بچت؟ اس ٹیکس سے حکومت کی اتنی بچت ہو گی۔ ملازموں کی تنخواہیں نہیں بڑھائیں گے تو اتنی بچت ہو گی۔ بجٹ ہی بجٹ۔ بچت ہی بچت۔
جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ جس کام کے لئے صدر زرداری کو پانچ سال لگے۔ وہ اسحاق ڈار نے پانچ دن میں کر دیا ہے۔ وہ دبئی میں زرداری صاحب کے ہمسائے ہیں۔ وہ بے نظیر بھٹو کے بھی ہمسائے ہونگے مگر اس کا ذکر کبھی نہیں ہوا۔ بے نظیر بھٹو سیاستدان تھیں۔ زرداری صاحب سیاستدان سے کچھ زیادہ ہیں اور ڈار صاحب سیاستدان سے کچھ کم ہیں۔ صدر زرداری نے ہنستے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اسحاق ڈار مسلم لیگ ن میں ہمارے نمائندے ہیں۔ ابھی پتہ نہیں چل رہا اسحاق ڈار اصل میں کس کے آدمی ہیں۔
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں۔ سپریم کورٹ نے بجٹ پاس ہونے سے پہلے مسلم لیگ ن کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ کیا حکومت اور عدالت میں دوبارہ ٹھن جائے گی۔ صدر زرداری نے تو دھڑلے سے پانچ سال پورے کر لئے۔ نواز شریف اسحاق ڈار کے ہوتے ہوئے کیا کریں گے۔
ڈار صاحب نے فرمایا ہے کہ قیمتیں آئینی طور پر بڑھائی گئی ہیں۔ اس آئین میں عام غریب لوگوں کے لئے کچھ نہیں لکھا ہوا۔ کیا آئین صرف سیاستدانوں کے لئے بنایا گیا ہے؟ سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کو اسحاق ڈار کے ہوتے ہوئے کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
کوئی پتہ چلائے کہ مسلم لیگ ن کا آسمان کون ہے تو مجھے ضرور بتائیے۔ اسحاق ڈار سے پوچھنے سے گریز کیا جائے۔ کھوسہ صاحب کو معلوم نہیں کہ فرینڈلی اپوزیشن مفاہمتی اپوزیشن ہو جائے تو بھی اپوزیشن نہیں ہوتی۔ عمران کے نائب شاہ محمود قریشی نے اسے جمہوری اپوزیشن کہا ہے۔ صدر زرداری نے جمہوریت کی طرح اپوزیشن کا بھی چہرہ بگاڑ دیا ہے۔ ایک خبر تصویر کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ اس کتے نے دنیا کے بدصورت ترین کتے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ ”اعزاز“ کے لفظ پر غور کریں۔ صدر زرداری اور سب سیاستدانوں نے جو حال جمہوریت کا کیا ہوا ہے۔ انہیں بھی کوئی اعزاز ملنا چاہئے۔ بجٹ پیش کرنے پر اسحاق ڈار واقعی ”اعزاز“ کے مستحق ہیں۔
اسحاق ڈار نے بڑے زعم میں کہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضے لیں گے مگر اپنی شرائط پر لیں گے جس طرح انہوں نے ”بجٹ“ اپنی شرائط پر پیش کیا ہے۔ دنیا کا یہ پہلا بھکاری ہو گا جو اپنی شرائط پر بھیک لے گا۔ امریکہ نے قرضے کو بھی بھیک بنا دیا ہے۔ میری گزارش ہے کہ اسحاق ڈار یہ بجٹ منظور نہ ہونے دیں۔ خود بھی اپنے اس بجٹ کے خلاف ووٹ دیں۔ ایک دو دن میں یہ بجٹ پیش کیا جا سکتا ہے تو عوامی اور فلاحی بجٹ بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم وہ سیاسی بجٹ تو ہونا چاہئے۔ لوگ جھوٹے وعدے سن کر بھی خوش ہو جاتے ہیں۔