• news

پنجاب اسمبلی : ضمنی بجٹ غیر آئینی ہے‘ اپوزیشن انگلی اٹھانے کی بجائے منظوری دی جائے : مجتبی شجاع

پنجاب اسمبلی : ضمنی بجٹ غیر آئینی ہے‘ اپوزیشن انگلی اٹھانے کی بجائے منظوری دی جائے : مجتبی شجاع

لاہور (خصوصی نامہ نگار + خبر نگار + سپیشل رپورٹر + ثناءنیوز) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے ساڑھے آٹھ ارب روپے کے ضمنی بجٹ کو غیر آئینی اور حکمرانوں کی نااہلی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جبکہ وزیر خزانہ نے کہا کہ کوئی فضول خرچی نہیں گئی۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا کہ دوربین سے بھی گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی‘ صوبہ 445 ارب کا مقروض ہے جبکہ 2008ءمیں ایک سو ارب روپے سرپلس تھے، صوبے کے خزانے کو بے دردی سے لٹایا جارہا ہے، میاں شہباز شریف نے یو ای اے کے سربراہ کو 8 لاکھ 75 ہزار کا فالکن (باز) تحفے میں دیدیا‘ ڈی جی ایل ڈی اے کو کس خوشی میں میٹروبس منصوبے کے بعد 4 کروڑ 80 لاکھ انعام دیا گیا‘ (ن) لیگ صوبے کے خزانے کو بیدردی سے لوٹ رہی ہے‘ پولیس کو ضمنی بجٹ میں 3 ارب 24 کروڑ دئیے گئے جبکہ صوبے میں جرائم کی شرح میں بھی فنڈز کی طرح اضافہ ہو رہا ہے۔ ضمنی بجٹ 2012-13ءپر بحث کا آغاز کرتے ہوئے میاں محمود الرشید نے کہا کہ پنجاب حکومت ایک طرف سادگی کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف صوبے کے خزانے کو جس انداز سے لوٹا جا رہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ہم حضرت عمر فاروقؓ اور عمر بن عبدالعزیزؓ کو رول ماڈل بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے ضمنی بجٹ میں عوام کی فلاح وبہبود کی بجائے عیاشیوں پر اربوں روپے خرچ کئے‘ وزیر اعلیٰ کی کراچی میں انیکسی پر 38 لاکھ تزئین وآرائش پر خرچ کئے گئے‘ میٹرو بس منصوبے کی خوشی میں لاہور پولیس کو 30 لاکھ دیئے گئے‘ نگران وزیر اعلیٰ کی رہائش کے لئے سکیورٹی کے لئے 18 لاکھ روپے خرچ کر دئیے گئے اور وہاں پر ایک ملین روپے کے ایل سی ڈی ٹی وی خریدے گئے۔ صوبے میں ہر روز چوری‘ ڈکیتی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ضمنی بجٹ میں بھی پولیس کو 3 ارب 44 کروڑ روپے کی اضافی رقم دی گئی۔ 61 کروڑ روپے پنجاب کے 782 افراد میں تقسیم کئے گئے جن میں سے 492 کا تعلق لاہور سے ہے کیا غریب لوگ صرف لاہور میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی اینٹ سے اینٹ بج رہی ہے، حکمران صوبے کے خزانے کو اپنی جاگیر سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکمرانوں نے پانچ بلٹ پروف گاڑیاں خریدیں لیکن میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی بھی ایسی بلٹ پروف گاڑی تیار نہیں ہوئی جس میں موت کا فرشتہ داخل نہیں ہو سکتا۔ تحریک انصاف کی سعدیہ سہیل نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں حکمرانوں کی نااہلی اور نالائقی سامنے آئی ہے۔ (ق) لیگ کے وقاص حسن موکل نے کہا کہ 82 ارب سے زائد مالیت کا سپلیمنٹری بجٹ کسی طور فنانشل مینجمنٹ اور گڈ گورننس کے زمرے میں نہیں آتا۔ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو کی طرف سے سادگی اور بچت کی بات کی جاتی ہے مگر بجٹ دستاویز کچھ اور ہی داستان سناتی ہیں۔ خزانے کو ریوڑیوں کی طرح بانٹنے سے گریز کیا جائے۔ سپلیمنٹری بجٹ میں واسا کو مجموعی طور پر 2 ارب 85 کروڑ 77 لاکھ 86 ہزار کی گرانٹ دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ قومی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق واسا 100 فیصد تک پانی کے صارفین پر نیا بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ 82 ارب روپے کی رقم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمنی بجٹ میں جنوبی پنجاب کے 12 اضلاع پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا اگر یہی سلوک کرنا ہے تو جنوبی پنجاب کو پنجاب کے نقشے سے ختم کر دیا جائے یہی بہتر ہو گا۔ (ق) لیگ کی ثمینہ خاور حیات نے کہا کہ ایک طرف چائے اور چینی تک بند کر دی گئی۔ دوسری طرف گزشتہ سال انٹرٹیمینٹ کی مد میں بجٹ میں 80 لاکھ روپے رکھے گئے تھے لیکن ضمنی بجٹ کے مطابق 3 کروڑ 40 لاکھ خرچ ہوئے۔ 445 ارب روپے کے مقروض صوبے میں 3 کروڑ 40 لاکھ انٹرٹیمینٹ پر خرچ کرنا زیادتی ہے۔ صرف وزرا کی گاڑیوں پر سے جھنڈے اتارنے سے سادگی نہیں آئے گی۔ پنجاب میں خط غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد 4 کروڑ ہے۔ تحریک انصاف کے صدیق خان نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں جن ”غریبوں“ کو مدد دی گئی ان میں سے 61 فیصد صرف لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اس طرح 16 کروڑ کی خطیر رقم صرف لاہور کے غریبوں میں تقسیم کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے جمیل حسن خان نے کہا کہ بہترین متوازن بجٹ پیش کرنے پر اپوزیشن کو وزیراعلیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر یونین کونسل میں بچوں کا ہائی سکول ہونا چاہئے۔ ضمنی بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ میاں مجتبٰی شجاع الرحمان نے کہا کہ (ق) لیگ کے دور کے اختتام پر صوبے میں 100 ارب نہیں بلکہ صوبے کے خزانے میں 17.2 ارب تھے لیکن 2013 ءمیں جب (ن) لیگ کی حکومت کا اختتام ہوا تو صوبے کے خزانے میں 253 ارب روپے تھے، ہم نے صوبے کے خزانے کو (ق) لیگ کی طرح لوٹایا نہیں ان کے دور میں تو چودھری مونس الٰہی نے لاہور میں الیکشن لڑنے کے لئے گلبرگ، ماڈل ٹاو¿ن اور دیگر پوش علاقوں میں بھی لوگوں کے گھروں میں 15، 15 ہزار کے چیک بھجوادیئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ضمنی بجٹ میں 82 ارب خرچ ہوئے لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ان میں 38 ارب گندم کی خریداری، 10 ارب تعلیم اور 28 ارب ٹیکنیکل گرانٹ کے لئے استعمال کئے گئے۔ آئین اور رولز کے مطابق پنجاب حکومت جاری ترقیاتی بجٹ کے 10 فیصد حصے کے برابر ضمنی بجٹ میں رقم استعمال کر سکتی ہے۔ ثناءنیوز کے مطابق مجتبیٰ شجاع نے کہا کہ ضمنی بجٹ بالکل ٹھیک ہے اس پر انگلی اٹھانے کی بجائے اسے منظور کر لینا چاہئے۔ اسلم اقبال نے ض منی بجٹ پر تقریر میں کہا کہ اسے پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں لگتا ہے کہ مغعلیہ دور کے اخراجات کئے گئے ہیں اللے تللوں پر رقم خرچ کی گئی ہے، بھارت میں بھی ضمنی گرانٹ سارا سال حکومت اسمبلی سے منظور کرواتی ہے یہ پچھلے سال کا خرچہ ہے ہم منظور کر رہے ہیں کیا اس اسمبلی کے دور میں یہ خرچہ ہوا ہے۔ یہاں پر گڈ گورننس کا رونا رویا جا رہا ہے لاہور شہر میں لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے چلیں گندہ پانی ہی دے دیں لوگ ابال کر پی لیں گے۔ احسن ریاض فتیانہ نے کہا کہ پولیس بے لگام ہو گی تو حالات یہی رہیں گے۔ حکومتی رکنی میاں محمد رفیق نے کہا کہ ضمنی بجٹ اچھی روایت نہیں ہے یہ صرف ناگزیر ضرورت کے تحت پیش کیا جانا چاہئے۔ سبطین خان نے کہا کہ زراعت کے بجٹ میں کم پیسے رکھے گئے ہیں۔
پنجاب اسمبلی

ای پیپر-دی نیشن