”جنرل“ بھٹو کے سپاہی کیلئے اظہار افسوس
”جنرل“ بھٹو کے سپاہی کیلئے اظہار افسوس
معروف صحافی مرحوم عباس اطہر کے بیٹے اور بیٹی کو ایوان صدر میں بلا کے صدر زرداری نے بہت دنوں بعد تعزیت کی۔ انہوں نے ایک دوست کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لئے ولیمہ بھی ایوان صدر میں کرا لیا تھا۔ صدر زرداری کے زمانے میں ایوان صدر کو جس جس کام کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مرحوم عباس اطہر پیپلز پارٹی کے آدمی تھے۔ بھٹو صاحب کے لئے جو ہیڈ لائن عباس اطہر نے نکالی تھی وہ تاریخی ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان کی دردناک تاریخ کا خلاصہ اس میں نظر آتا ہے۔ ”اُدھر تم اِدھر ہم“ اس سانحے کے دو کردار واضح ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو۔ تیسرا کردار اندرا گاندھی ہے۔ میں بھٹو کی کئی صلاحیتوں کی وجہ سے ان کا مداح بھی ہوں۔ اس میں ایٹمی ٹیکنالوجی کا آغاز اور اسلامک سمٹ ان کا کریڈٹ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
یہ تو مجھے ایک جینوئن دانشور مواحد حسین نے بتایا کہ اسلامک سمٹ کا آئیڈیا شاہ فیصل کا تھا اور یہ بھی ان کی تجویز تھی کہ اس کے لئے لاہور شہر کو مرکز بنایا جائے۔ بھٹو صاحب کو شاہ فیصل نے آگے کیا تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے سے ڈاکٹر قدیر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے بھٹو صاحب کو ایٹم بم بنانے کی تجویز دی ورنہ بھارت مغربی پاکستان (پاکستان) کو بھی ڈسٹرب کرے گا۔ عمران خان کا نیا پاکستان کا نعرہ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ یہ بھٹو صاحب نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد لگایا تھا۔ میں تو مغربی پاکستان کو پاکستان کہنے کے بھی حق میں نہیں کہ مغربی پاکستان ہوتا تو مشرقی پاکستان بھی یاد رہتا۔ بہرحال بھٹو صاحب ایک تاریخی کردار ہیں جسے کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا یہ اعزاز بھی ہے کہ وہ شاید دنیا کے واحد سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ کچھ لوگ تو جنرل ایوب، جنرل یحیٰی، جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شامل کرتے ہیں۔ جنرل ذوالفقار علی بھٹو، سقوط مشرقی پاکستان کے لئے تیسرا کردار اندرا گاندھی ہیں۔ انہیں بھی ایمرجنسی نافذ کرنے کا شرف حاصل ہے اور وہ بھی سویلین یعنی سیاستدان تھیں۔ ان تینوں کا انجام ایک جیسا ہوا۔ نجانے ان میں کونسی قدر مشترک تھی۔
میں نے بات عباس اطہر سے شروع کی تھی کہ وہ بہت دنوں تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے صدر زرداری نہ آئے۔ وہ تو اپنے والد کی عیادت کے لئے چند قدم پر پمز ہسپتال اسلام آباد میں نہ گئے تھے۔ ان کا کوئی نمائندہ بھی عباس اطہر کے جنازے میں شامل نہ ہوا۔ ان کے گھر بھی کوئی نہ گیا۔ ڈاکٹر قیوم سومرو نے صدر زرداری کو اپنے دوستوں سے جدا کر دیا ہے۔
نصرت جاوید نے اس طرف اشارہ کرکے بڑے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ احمد ریاض شیخ بھی ایک ملاقات میں حیرانی بھری پریشانی میں صرف رنجیدہ ہوئے کہا کچھ نہیں۔ عباس اطہر ریاض شیخ کے بھی بہت دوست تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے لئے دل و جان سے نثار تھے۔ اس جذبے میں صدر زرداری کی حمایت سے بھی باز نہ آتے تھے۔
صدر زرداری کے لئے مشہور تھا کہ وہ یاروں کے یار ہیں۔ یار بدلنے کی بات تو میں نہیں کرتا۔ نئے یار بنانے میں انہوں نے ہمیشہ جلدی کی ہے۔ اس معاملے میں بھی وہ سیاست کرنے لگے تھے۔ سیاست کی پرانی راہوں پر کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ انہوں نے اقتدار کی سیاست میں نام کمایا ہے۔ وہ صدر نہ ہوتے تو شاید یہ سیاست نہ کر سکتے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ اگلے صدر پاکستان ہیں۔ اس لئے ابھی بینظیر بھٹو کو قبر میں بھی نہ اتارا گیا تھا کہ ان کی سیاست شروع ہو گئی تھی۔ شہید بی بی نے زندگی میں زرداری صاحب کو بہت کچھ بنایا۔ مرنے کے بعد تو صدر زرداری بنا دیا۔ یہ ایوان صدر کی عطا ہے کہ ان کے لئے یہ نعرہ دوستوں دشمنوں نے قبول کیا۔ اک زرداری سب پر بھاری۔ مگر نواز شریف نے وزیراعظم بن کے صدر زرداری کو بتا دیا ہے ”سو سنار کی ایک لوہار کی“
عباس اطہر نے دیکھا کہ صدر زرداری کو کچھ صحافی گھیرے ہوئے ہیں اور جائز ناجائز کی تمیز ختم کر چکے ہیں تو انہوں نے صدر زرداری کو محتاط رہنے کے لئے کہا کہ یہ لوگ آپ کے نام پر پیسے بنا رہے ہیں۔ تو صدر زرداری نے اپنی وسیع و عریض مسکراہٹ کے اندر سے کہا کہ تم بھی میرے نام پر پیسے بنا لو۔
پیر اعجاز بھی ایوان صدر میں ہیں۔ ان کی وجہ سے صدر زرداری کو کئی کامیابیاں ملی ہیں۔ وہ ایک درویش آدمی ہیں۔ فقیر خدا مست ہیں۔ برادرم شاہد رشید کے حوالے سے ان کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کے پاس کچھ ہے۔ وہ مجید نظامی کے مداح ہیں۔ وہ صدر زرداری کی حفاظت کریں۔ انہیں کچھ سمجھایا بھی کریں کہ موت سے ڈرا نہیں کرتے۔ دوست نوازی اچھی ہے مگر دوست شناسی اور وضعداری بہت اچھی ہے۔