مشرف کے ٹرائل سے فوجی مداخلت کا باب بند نہیں ہوگا: اعجاز الحق
لاہور(اشرف ممتاز) مسلم لیگ ض کے سربراہ اعجاز الحق کا کہنا ہے کہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ جنرل پرویز مشرف کے ٹرائل کے بعد مستقبل میں کبھی مارشل لاءنہیں لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ جولائی 1977ءاور اکتوبر1999ءکے مارشل لاءکے وقت بھی آرٹیکل6آئین کا حصہ تھا جس کے باوجود فوج نے سول حکومتوں کو اقتدار سے دور کردیا تھا۔ لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ مشرف کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کے بعد فوج کبھی مداخلت نہیں کریگی۔ تاریخ کی گواہی سے معلوم ہوتا ہے کہ آرٹیکل6 مارشل لاءکا راستہ نہیں روک سکا جبکہ گزشتہ پانچ سال میں پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کی بے پناہ کرپشن کے باوجود فوج نے مداخلت نہیں کی۔ جس طرح فوج حکومت کو دہشت گردی کیخلاف طے شدہ وقت کے اندر بل منظور کرنے کا دباﺅ نہیں ڈال سکتی اسی طرح یہ بات سپریم کورٹ کے دائرہ کار سے باہر ہے کہ وہ حکومت کو جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل شروع کرنیکا کہے۔ تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ کوئی ادارہ دوسرے ادارے کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ اعجاز الحق نے کہا کہ تین نومبر 2007ءکو آئین معطل کرنے پر مشرف کے خلاف ٹرائل سے پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ پھر12اکتوبر1999ءکے جائز ہونے اور اس پر دئیے جانے والے استثنیٰ پر سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ پر بھی سوالات اٹھیں گے، پارلیمنٹ نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس اقدام پر کارروائی سے دستبردار ہوچکی ہے۔ اسی طرح سترہویں ترمیم میں پارلیمنٹ نے جنرل مشرف کے 12اکتوبر کے اقدام کی توثیق کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کو 3نومبر اور12اکتوبر دونوں مرتبہ کی آئین شکنی پر عدالت کے کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے مگر یہ بات قرین انصاف نہیں کہ صرف فرد واحد کو تو پکڑ لیا جائے اور اسے بھٹکانے والے اور اسکے ساتھ تعاون کرنے والوں کو چھوڑ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف کے 3نومبر کے اقدامات کی اسی لئے توثیق نہیں کی جاسکی کیونکہ ان کے پاس پارلیمان میں نمبر پورے نہیں تھے۔ اب اگر آرٹیکل 6کا اطلاق کرنا ہے تو پھر اس کی تمام شقوں کا اطلاق کرنا ہوگا اور اگر سارے آرٹیکل 6پر عمل کیا گیا تو پھر اس کی زد میں عدلیہ، پارلیمنٹ اور حکومت بھی آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صرف جنرل مشرف کے عدالتی ٹرائل سے ظاہر ہوگا کہ بعض لوگ ان کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔