انتخابات کے مرحلے سے متحدہ مشکلات کا شکار ہے، بیرون ملک بھی اس کا اظہار ہوا: بی بی سی
کراچی (بی بی سی / نیٹ نیوز) کراچی کے کئی علاقوں میں بینرز جھول رہے ہیں جن پر تحریر ہے ”قائد صرف الطاف حسین“ گزشتہ شب ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے ایک بار پھر اپنی جماعت کی قیادت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کارکنوں کے بے حد اصرار پر انہیں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ بی بی سی کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کا یہ پرانا نعرہ ہے کہ ”ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئے“۔ اس غیر روایتی فلسفے کو ایم کیو ایم کارکنوںکی اپنی قیادت سے محبت اور عقیدت قرار دیتی ہے جبکہ ناقدین اس کو تنظیم پر مضبوط گرفت قرار دیتے ہیں۔ الطاف حسین نے انتخابات کے بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ شکوہ کیا تھا کہ رابطہ کمیٹی نے عمران خان کی تنقید کا موثر جواب نہیں دیا، اس سے انہیں صدمہ پہنچا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے ان الفاظ کے بعد کارکن طیش میں آگئے اور سینئر رہنماﺅں کو بھی کارکنوں کے سخت رویئے کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر رابطہ کمیٹی میں سے معروف قیادت فارغ کردی گئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق انتخابات کے مرحلے سے ایم کیو ایم مشکلات کا شکار رہی اور یہ مشکلات اندرون ملک کے علاوہ اب بیرون ملک پہنچ چکی ہیں۔ وفاق اور سندھ میں حکومت سازی کے وقت تجزیہ نگاروں کی نظریں ایک بار پھر ایم کیو ایم پر رہیں لیکن کئی تجزیہ نگاروں کی رائے کے برعکس ایم کیو ایم نے اپوزیشن کا انتخاب کیا۔ متحدہ حکومت کا حصہ بنتی ہے تو عوامی سیاست سے ایک بار پھر کنارے لگ جائے گی اور اس کی مقبولیت جو اب پہلے جیسی نہیں رہی، مزید متاثر ہونے کا امکان ہے۔ تاہم اگر وہ حکومت کا حصہ نہیں بنتی تو اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں ایم کیوایم یہ شکایت کرتی رہی کہ ایک بار پھر اس کے کارکنوں کے خلاف غیر اعلانیہ آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے اور بلوچستان کے طرز پر کارکنوں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا جارہا ہے۔