نہ اُسکی دوستی اچھی نہ اُسکی دشمنی اچھی
نہ اُسکی دوستی اچھی نہ اُسکی دشمنی اچھی
نجانے اندر کھاتے کیا ہے کہ پاکستان کا ہر حکمران بھارت دوستی کے دھوکے کو قبول کر لیتا ہے۔ سیاستدان تو اس رشتے کے اعلان کو اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں، وہ حکمران بنتے ہیں تو امریکہ سے روابط کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بھی اپنی سیاست کا عنوان سمجھتے ہیں۔ عمران خان نے بھی امن کی آشا کے حوالے سے ایک میڈیا گروپ کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ اپنی دوستی کو اپنی تقریر میں اپنی ذاتی تقدیر کی طرح بیان کیا تھا۔ نواز شریف نے بھی الیکشن سے پہلے ہی امن اور خوشحالی کا راگ الاپنا شروع کر دیا تھا۔ اس گیت کی موسیقی بھارت میں تیار کی گئی تھی۔
عمران خان کی باتوں کو تو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا، التبہ نواز شریف کی طرف سے یہ کھلا اظہار محترم ڈاکٹر مجید نظامی کو بُرا لگا کہ وہ شریف فیملی کے لئے بہت اچھے جذبات رکھتے ہیں اور شریف خاندان بھی انہیں اپنا بزرگ اور محسن سمجھتا ہے۔ سب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کبھی پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں کوئی غیر دوست ملک پاکستان کے لئے ہو سکتا ہے تو وہ بھارت ہے۔ میں نے دشمن کا لفظ استعمال نہیں کیا کہ دشمن کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے۔ دوستی نہ ہونا دشمنی نہیں ہوتا، دشمنی نہ ہونا دوستی نہیں ہوتا۔ امریکہ اور بھارت کے لئے دنیا بھر کی قوموں کی متفقہ رائے ہے، سوچنا سب حکمرانوں کیلئے مفید ہو گا۔
نہ اس کی دشمنی اچھی نہ اس کی دوستی اچھی
نواز شریف اور شہباز شریف کی بڑی کامیابی نے سب کو حیران کر دیا مگر نواز شریف نے یہ کہہ کر پریشان بھی کر دیا کہ وہ منموہن سنگھ کو اپنی تقریب حلف برداری میں بلائیں گے۔ یہ ایک طرح سے دعوت تھی جسے منموہن سنگھ نے ٹھکرا دیا مگر چینی وزیراعظم آ گئے۔ وہ نئی حکومت کے قیام سے پہلے آئے مگر ہر جگہ نواز شریف کو اہمیت دی۔ نواز شریف نے کہا کہ کوئی مجھے نہیں بلائے گا تو بھی میں جاﺅں گا۔ بن بلائے مہمان کی ”عزت“ کو وہ جانتے ہیں۔
میدانِ صحافت میں ڈاکٹر مجید نظامی مرشد لیڈر اور سب سے سنیئر آدمی کی حیثیت میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ وہ 85 برس کی عمر میں بھی سرگرم تر و تازہ اور بیدار مغز ہیں۔ کبھی کبھی ایسی بات کرتے ہیں کہ لوگ دم بخود رہ جاتے ہیں۔ اس بارے میں مزاح اور معانی اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں کہ طنز اور رمز لفظوں کے دلوں میں گدگدی کرنے لگتے ہیں۔
مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کی ایڈوائزری کونسل میں ملک بھر سے آنے والے اعلیٰ سطح کے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا یہ بات نوائے وقت میں شائع ہو چکی ہے اگر وہ آ جاتے تو میاں صاحب کہتے تکلیف کرکے تشریف لے آئے ہیں تو کرپا کرکے اب حلف بھی آپ ہی لے لیں۔ نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو بلایا تھا وہ نہ آئے کہ یہ حلف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کا تھا اور پاکستان کو اچھی طرح چلانے کے لئے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونا ضروری ہے اور بھارت سے دوستی اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ بھارت کبھی پاکستان کو خوشحال اور خود مختار ملک نہیں ہونے دے گا، پاکستان کو محتاج رکھنے کے لئے امریکہ نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے بھارت دوستی اس کی انتہائی صورت ہے۔
اب نواز شریف کا رویہ بھارت دوستی کے معاملے میں کچھ محتاط ہو گیا ہے۔ شریف فیملی کے لئے مجید نظامی کی ناراضگی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے محب وطن حلقوں کی طرف سے بھی خاصا ردعمل سامنے آیا ہے۔ بھارت سے بجلی خریدنے کی خبر بھی بڑے دکھ اور پریشانی سے پاکستان میں سُنی گئی ہے۔ اس کا ردعمل سنبھالا نہیں جائے گا۔ اب خبر آئی ہے کہ بھارت اس کے لئے رضامند ہو گیا ہے گویا یہ بھی اس کا احسان ہے جبکہ چین اور ایران اس سے پہلے کئی بار باقاعدہ آفر کر چکے ہیں مگر امریکہ ایسا نہیں ہونے دیتا۔ یہ کیا آزاد تجارت ہے کہ کوئی خرید و فروخت بھی اپنی مرضی اور اپنے مفاد کے مطابق نہیں کر سکتا۔
برادرم جاوید صدیق نے اپنے کالم میں حقیقت پسندانہ اور جرا¿ت مندانہ موقف اختیار کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے حصے کے دریاﺅں پر پاکستان کے اعتراض کے باوجود بہت زیادہ ڈیم بنا کے بھارت زراعت کے شعبے میں پاکستان کو پسماندہ اور محتاج رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجید نظامی نے سالہا سال پہلے کئی دفعہ اپنی تقریروں میں کہا ہے کہ اس طرح بھارت پاکستان کو ریگستان بنا رہا ہے۔ ہمیں ایک کالاباغ ڈیم نہیں بنانے دیا جاتا۔ ایک خالصتاً ٹیکنیکل معاملے کو پولیٹکل بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے ہی پانیوں سے بجلی بنا کے ہمیں ہی فروخت کی جا رہی ہے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے اور ہماری حکومت یہ بجلی شکریے کے ساتھ خرید رہی ہے۔ اس بارے میں کوئی بات بھارت کے دوست نوازشریف بھارت کے ساتھ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بھارت کو واضح رہے کہ پہلے بھی پانی کے لئے جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ اب بھی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ اور سب سے خوفناک جنگ برصغیر میں ہو گی۔ ابھی کل ایک فارن نیوز ایجنسی نے کہا ہے پاک بھارت جنگ ہونے والی ہے اور بڑی خوفناک ہو گی۔ مجید صاحب نے کئی بار کہا کہ اس کے لئے ایٹم بم کا استعمال بھی ضروری اور جائز ہو گا۔
30 جون کے اخبارات میں بھارت دوستی کے ساتھ چین کے ساتھ محبت کا ذکر بھی ہوا ہے۔ ہمارے پرنٹ میڈیا نے بھارت کو اہمیت دی ہے۔ صرف نوائے وقت نے چین کو اولیت دی ہے۔ ہماری بقا چین کی مارکیٹ اکانومی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ جاوید صدیق نے لکھا ہے کہ چین نے عالمی جھگڑوں سے دامن بچا کر عسکری ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی میں بھی کمال کیا ہے۔ برطانیہ نے ہانگ کانگ بغیر لڑے ہوئے چین کے قدموں میں ڈال دیا ہے اور ہم کشمیر کے لئے کوئی مو¿ثر پالیسی نہیں اپنا سکے۔ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے مشرقی پاکستان غیر متنازعہ علاقہ تھا۔ بھارت نے ہمارے ساتھ کیا کِیا اور ہم خود کو بھارت دوستی کے مفاد پرستانہ دھوکے کے دائرے میں جکڑ رہے ہیں۔ بھارت کا یہ خواب پاکستان کے ہوتے ہوئے کبھی شرمندہ¿ تعبیر نہ ہو گا کہ وہ خطے کی بالادست طاقت بن کر ابھرے۔ ہمارے حکمرانوں کو ذاتی مفاد کے علاوہ پاکستان کا مفاد بھی اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
برطانیہ کا ذکر آیا ہے تو میں یہ عرض کروں کہ کالم کے آخر میں، پنڈی سے ایک دوست نے فون کیا ہے کہ اس موقعے پر ڈیوڈ کیمرون کا اچانک پاکستان آنا بہت معنی خیز ہے۔ وہ صرف یہ کہنے کے لئے نہیں آئے کہ پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔ نوازشریف سے پہلے صدر زرداری سے ان کی ملاقات بھی قابل غور ہے۔ فاروق ستار نے ایک دن پہلے کہا ہے کہ ہمارے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ آج الطاف حسین نے کراچی میں اپنی خواتین و حضرات کے اصرار پر ایم کیو ایم کا قائد رہنے کا اعلان کیا ہے۔ لندن میں عمران فاروق کے قتل کی تفتیش پھر شروع ہو گئی ہے۔ فاروق ستار نے ایک دن پہلے کہا کہ کراچی میں ہمارے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ آج ہی الطاف حسین کے طویل خطاب کے دوران ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایم کیو ایم کی قیادت سے استعفٰی نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ میں لندن پولیس کا ملزم ہوں مگر اپنے لوگوں کا قائد ہوں۔ لندن میں عمران فاروق کے قتل کی تفتیش پھر شروع کر دی گئی ہے۔ اس سے پہلے لندن پولیس بے نظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش بھی کر چکی ہے۔ الطاف بھائی بھی بھارت دوستی کو پاکستان کے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر عشرت العباد نواز شریف کے دور حکومت میں بھی گورنر سندھ ہیں۔ کراچی کے معاملے میں بھارت اور برطانیہ امریکہ سے بھی زیادہ ”دلچسپی“ لے رہے ہیں۔