• news
  • image

ای او بی آئی کیس‘ قومی اداروں میں اربوں کے گھپلے ہیں‘ ایف آئی اے کمر کس لے : چیف جسٹس‘ 40 ارب کی بدعنوانی کی تحقیقاتی رپورٹ دس روز میں پیش کرنیکا حکم

ای او بی آئی کیس‘ قومی اداروں میں اربوں کے گھپلے ہیں‘ ایف آئی اے کمر کس لے : چیف جسٹس‘ 40 ارب کی بدعنوانی کی تحقیقاتی رپورٹ دس روز میں پیش کرنیکا حکم

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+نیٹ نیوز+نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، ڈی جی ایف آئی اے کو فوری انکوائری اور تحقیقات کے بعد ملوث افراد کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے 10روز میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے حکم دےا کہ تحقیقات مکمل کرکے قومی دولت لوٹنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری ای اوبی آئی کو تحقیقات میں ایف آئی اے کے ساتھ سے مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے انکوائری اور تحقیقات کیلئے جس افسرکا نام تجویز کریں اس کی خدمات ان کو فراہم کی جائیں تاکہ ملوث افراد کو بے نقاب کیا جاسکے عدالت نے اٹارنی جنرل کو کیس کی نگرانی کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت 12جولائی تک ملتوی کردی۔ دوران سماعت چیف جسٹس کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کرکے لوٹی ہوئی دولت ہرصورت واپس وصول کی جائے گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازچودھری پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اس موقع پرڈی جی ایف آئی اے کے علاوہ سیکرٹری ای او بی آئی کے سیکرٹری ہیومن ریسورس عبدالخالق، ڈی ایچ اے کے سابق ڈائریکٹر کرنل (ر) طارق عدالت میں پیش ہوئے، ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری ہیومن ریسورس ای او بی آئی نے الگ الگ رپورٹس پیش کیں چیف جسٹس نے ڈی جی ایف اے سے استفسارکیاکہ انہوں نے اس کیس کا نوٹس کیوں نہیں لیا یہ ایک بڑاکیس ہے جس میں قومی خزانے کے اربوں روپے خورد برد کئے گئے عدالت کو بتایا جائے کہ جب میڈیا میں بھی یہ معاملہ زیربحث آیا اورآپ لوگوں کے پاس بھی معلومات تھیں پھرکیوں ایکشن نہیں لیا اگرکہیں ملکی دولت خورد برد ہورہی ہے توآپ آخرکس لئے ہیںڈی جی ایف آئی اے نے بتایاکہ ہم نے ای اوبی آئی کے معاملے کانوٹس لیا ہے خورد برد کے کل گیارہ معاملات ہیں جن میں سے دومیں کیس درج کرنے کے ساتھ تین افرادڈی جی واحد خورشید اور ماہم مجید دخترکرنل علی اسد مرزاکوگرفتارکرلیاگیاہے۔ سابق چیئرمین ظفرگوندل کوبھی گرفتارکرنے کی کوشش کررہے ہیں عدالت کے استفسار پر سیکرٹری ہیومن ریسورسز ای اوبی آئی نے کہا کہ وہ ابھی حال ہی میںادارے میں پوسٹ ہوئے ہیںجب بورڈ کے اجلاس کے ذریعے ان سنگین معاملات کاپتہ چلا تو پرچیز پر پابندی لگا دی جس پر جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ پھر کیا فائد ہ وہ اربوں روپے نکل گئے۔ڈی ایچ اے کے سابق ڈائریکٹرکرنل (ر) طارق کمال نے عدالت کو بتایا کہ321کنال کی یہ زمین ڈی ایچ اے نے ای اوبی آئی کو فروخت کی تھی جس کے بعد ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاﺅن کے سربراہ ملک ریاض نے جائنٹ ونچر کے تحت اس منصوبے کو آگے بڑھایا۔ بے شک ای او بی آئی نے خریدی گئی زمین کی قیمت ای او بی آئی کے چیکوں کے ذریعے ادا کی لیکن بعد میں معاہدہ کے تحت بحریہ ٹاﺅن کو بھی مقررہ حصہ ملتارہا کیونکہ اسی منصوبے تحت ڈی ایچ اے تک ایکسپریس وے بنانے کا معاہدہ بھی کیاگیا تھا ا ن کاکہناتھاکہ وہ ڈی ایچ اے میں ملازم تھے جہاں سے ان کو نکالا گیا بعد میں ان کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جس پرچیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ ، آئی جی اسلام آباد اورآئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ کرنل (ر) طارق کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے سیکرٹری عبدالخالق نے ادارے میں خورد برد کے حوالے سے بتایاکہ میں نے اپنی رپورٹ میں ای اوبی آئی کے 18 کیسوں کی نشاندہی کردی ہے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایک انوسٹمنٹ کمپنی بنائی گئی تھی ادارے کی جانب سے پراپرٹی، شیئرز خریدنے اور ڈیپازٹ میں سرمایہ کاری کی جاتی رہی کل 41 ارب کی سرمایہ کاری کی گئی شیئرزکے حوالے سے عدالت کوبتایا گیا کہ شیئرزمیں فارمولے کے تحت 12.26فیصد سرمایہ کاری کی گئی۔ او جی ڈی سی ایل، نیسلے، اٹک سیمنٹ، فوجی فرٹیلائزر،آرمی ویلفیئر، اینگرو اور پاک سوزوکی کے شیئرز خریدے گئے۔ دو مئی کو 5.6 ارب روپے کا منافع ادارے کوحاصل ہوا عدالت کو بتایا گیا کہ ظفر گوندل کے بعد نئے چیئرمین کی تقرری نہیں کی گئی سیکرٹری ہیومن ریسورس نے بتایاکہ باقی معاملات کے بارے میں انکوائری رپورٹ 6جولائی تک عدالت کوپیش کی جائے گی جو بھی کیس سنگین ثابت ہوا اسے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا جائے گا چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ زمین ڈی ایچ اے سے خریدی گئی چیک ان کے نام جاری ہوئے پھرملک ریاض یا بحریہ ٹاﺅن کس طرح اس کیس میں ملوث ہوسکتا ہے کرنل (ر) طارق نے بتایاکہ یہ سارا کام باقاعدہ معاہدے کے تحت ہوا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایاکہ گرفتار ہونے والوں میں ڈی جی واحد خورشید، ماہم مجید دخترکرنل علی اسد مرزا شامل ہیں جبکہ قاسم پرویز اور اقبال داﺅد نے ضمانت کرالی ہے جس کے خاتمے کے بعد ان کو بھی گرفتارکر لیا جائے گا عدالت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے کا غلط استعمال ہوا ہے جس نے بھی جرم کیاہے بلاامتیازان کیخلاف کارروائی کی جائے گی رجسٹرارکے ذریعے دونوں افراد کی ضمانتوں کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کوفوری طور پرکیس کی انکوائری شروع کرنے کی ہدایت کی اورکہا کہ دس روزمیں تحقیقات مکمل کرکے عدالت کورپورٹ پیش کی جائے۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کے سربراہ کو ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کے حکام کی جانب سے سرمایہ کاری کے منصوبوں میں مبینہ طور پر 40 ارب روپے کی بدعنوانیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ رقم اس ادارے کے سابق سربراہ ظفراقبال گوندل کو ادا کی گئی اور ا±نہوں نے ہی اس رقم کی منتقلی سے متعلق احکامات جاری کیے تھے۔ ایف آئی اے کے ڈی جی کا کہنا ہے کہ ظفر اقبال کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اس بدعنوانی میں ملوث تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں ڈی جی سرمایہ کاری وحید خورشید شامل ہیں۔واضح رہے کہ ای او بی آئی کے سابق سربراہ ظفر اقبال گوندل پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر نذر محمد گوندل کے بھائی ہیں۔ عدالت نے چاروں صوبوں کے ہوم سیکرٹریز کو اس ضمن میں ایف آئی اے کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ای او بی آئی میں چالیس ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں جن میں سے پندرہ ارب روپے سے زائد کی رقم کی زمین خریدی گئی اور یہ زمین کسی ادارے کے نام پر نہیں بلکہ ایک تعمیراتی فرم کے نام پر کی گئی یہ پیسہ نیم سرکاری اور نجی کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد کا ہے۔ ای او بی آئی کے سیکرٹری عبدالخالق نے عدالت کو بتایا کہ ملازمین کی طرف سے جمع کرائی گئی رقم سے لاہور میں ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی میں پندرہ ارب روپے کی زمین خریدی گئی یہ زمین ایک نجی تعمیراتی کمپنی کے نام کردی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس شخص نے یہ کام کیا کیا ا±س کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی جس پر ای او بی آئی کے سیکرٹری عبدالخالق کا کہنا تھا کہ وہ شخص پہلے ہی کسی اور ج±رم میں جیل میں ہے۔ سیکرٹری ای او بی آئی کا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین کے دور میں 34 ارب روپے کی اراضی خریدی گئی تھی۔آڈیٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ا±ن کا ادارہ ای او بی آئی کا آڈٹ کرنا چاہتا تھا لیکن تحریری حکمنامے کے ذریعے ا±نہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ سیکرٹری ای او بی آئی نے کہا کہ اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ مہنگی گاڑیاں بھی خریدی گئیں۔ یہ گاڑیاں ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے دوران ا±میدواروں کی طرف سے شروع کی جانے والی انتخابی مہم کے دوران بھی استعمال ہوئیں تھیں۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ سابق چیئرمین کو انتخابات میں سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے پر ا±ن کے عہدے سے فارغ کیا گیا۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی سطح پر بدعنوانی ہوئی کیا ا±س وقت کی حکومت یا نگراں حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی تو عبدالخالق کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کے دور میں الیکشن کمیشن نے ظفراقبال کو تبدیل کرنے کے لئے کہا تھا۔ ڈی ایچ اے کے سابق ڈائریکٹر ٹاو¿ن پلاننگ محمد طارق نے عدالت کو بتایا کہ ای او بی آئی نے جب یہ زمین خریدی تو ڈی ایچ اے لاہور کے انچارج نے بغیر کوئی پیسہ لیے یہ اراضی نجی تعمیراتی کمپنی کے نام پر منتقل کردی۔ وہ یہ معاملہ ایف آئی اے اور قومی احتساب بیورو کے علم میں لے کر آئے ا±ن سے متعقلہ افسروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا لیکن اس کے برعکس ا±نہیں (طارق) کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایف آئی اے کو ای او بی آئی میگا کرپشن کی 18ٹرانزیکشنز کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے تحقیقات 10 روز میں مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے۔ تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کمیٹی قائم کرے۔ سیکرٹری داخلہ ایف آئی اے کو مطلوبہ وسائل مہیا کریں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا ظفر اقبال گوندل کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں ڈی جی انویسٹمنٹ وحید خورشید کو گرفتارکر لیا گیا ہے۔ قاسم پرویز اور اقبال داﺅد ہائی کورٹ سے راہداری ضمانت پر ہیں۔ عدالت نے دونوں کی ضمانتوں کے آرڈرز منگوا لئے۔ قبل ازیں قائم مقام سیکرٹری ای او بی آئی عبدالخالق نے ابتدائی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ سیکرٹری نے عدالت کوبتایا کہ سابق چیئرمین ظفر گوندل کے دور میں 34 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا پیپرا رولز سب پر اور ہر جگہ لاگو ہوتے ہیں۔سابق ٹاﺅن پلاننگ ڈی ایچ اے کرنل محمد طارق نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ایف آئی اے اور نیب کو غلط ڈیل کی نشاندہی کی لیکن کارروائی نہ ہوئی، بلکہ غلط ڈیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے بجائے مجھے فارغ کردیا گیا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ سارا پیسہ مزدوروں کا ہے اس سے مزدوروں کو ہی فائدہ پہنچنا چاہئے۔آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کے باعث کرپشن بے نقاب ہو رہی ہے ،قومی اداروں میں اربوں روپے کے گھپلے سامنے آ رہے ہیں، ایف آئی اے کمر کس لے کرپشن ختم کر نے کے لیے تفتیشی اداروں کو دن رات کا م کر نا ہو گا، مقدمے کی مزید سماعت 12جولائی تک ملتوی کر دی گئی، جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ ساڑھے چار لاکھ لوگ ای او بی آئی کو پیسہ دیتے ہیں، یہ سارا پیسہ مزدوروں کے لیے ہے فائدہ بھی انہیں ہی پہنچنا چاہیے، 3 کنال کے لیے 25 کروڑ روپے کی سر مایہ کاری کر دی گئی، عدالت کو ای او بی آئی کے ڈائریکٹر انفورسٹمنٹ آصف نے بتایا کہ 41 ارب روپے کے شیئرز اسٹاک ایکسچینج میں خریدے گئے ہیں، جن کمپنیوں کے شیئرز خریدے گئے ہیں ان میں نیسلے، فوجی فرٹیلائزر، اٹک سیمنٹ، اٹک ریفائنری، پاک سوزوکی شامل ہیں، پالیسی کے تحت جب تک ان شیئرز کی قیمت میں 2 سے 3 فیصد اضافہ نہ ہو جائے شیئرز کو فروخت نہیں کر سکتے، عدالت نے استفسار کیا کہ وہ قوانین بنائے جائیں جن کے تحت پرائیویٹ آدمیوں سے پراپرٹی کا بزنس کیا جا سکتا تھا ، کیا شیئرز خریدتے وقت اور جائیدادیں خریدتے وقت پیپرا رولز پر عمل کیا گیا، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ڈی ایچ اے مفت میں زمین آگے دیتا ہے کیا ڈی ایچ اے کو پوچھنے والا کوئی نہیں، قوم کا پیسہ برباد کیا جا رہا ہے، جسٹس اعجاز احمد چودھری نے کہا کہ بادی النظر میں پیپرا رولز پر عمل نہیں کیا گیا، دو پراپرٹیز 15 ارب، 6 ارب میں خریدی گئیں۔
ای او بی آئی کیس

epaper

ای پیپر-دی نیشن