میاں صاحب سے باتیں
نئی حکومت آئے مہینہ ہو گیا مگر نئے حالات نہیں بنے جبکہ ہر جماعت (موجودہ حزب اقتدار اور اختلاف) کا انتخابی نعرہ نیا اور بدلا پاکستان تھا۔ حالات بھی پرانے اور واقعات بھی نئے نہیں ہیں۔ چہرے بھی نئے اس لئے نہیں کہ میڈیا میں تواتر کے ساتھ یہی چہرے جلوہ گر رہتے تھے۔ پاکستان کی جمہوریت بلکہ آمریت بھی یک رنگ نکلی جس میں خوردبین سے بھی حزب اختلاف نظر نہیں آتی۔ شیر ہو یا تیر، بلا ہو یا پیر، اقتدار کے سنگھاسن میں سبھی ایک ہوئے :اس مقصد کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں سب انٹرنیشنلزم کے پُجاری اور نیشنلزم سے عاری ہیں۔ یہ خود باہر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور قوم کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی نوید یا وعید دیتے رہتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی غیر ملکی سرمایہ کاری اور نجکاری کے باعث اپنے ہی قومی اداروں میں اپنی گرفت کمزور کر بیٹھا ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران نجکاری پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار ریاست کے عملی حصہ دار بن گئے ہیں۔ پہلے توانائی کو پن بجلی سے پٹرول اور ڈیزل پر منتقل کیا جس سے نہ صرف کالا باغ ڈیم کی تعمیری اہمیت کم ہو گئی بلکہ پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمت نے مہنگائی میں روز افزوں اضافہ بھی کر دیا ہے، علاوہ ازیں غیر ملکی سرمایہ کار ڈالرز اور پا¶نڈز کرنسی میں کام کرتے ہیں اور عوام کی غریب اکثریت نیشنل کرنسی یعنی روپے میں کماتی ہے اور انٹرنیٹشنل کرنسی ڈالر میں خرچ کرتی ہے لہٰذا روزمرہ کی ضروری اشیاءبھی عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ نئی حکومت کی نیت پر شک نہیں البتہ طریق کار سے اختلاف ہے۔ میاں صاحب نے اپنے پہلے ادوار میں انٹرنیشنل طاقتوں کی دھمکی، دباﺅ اور لالچ کے باوجود اعلان تکبیر کیا، خود انحصاری کی پالیسی اپنائی، لیکن نتیجہ کیا نکلا، میاں صاحب ”اپنوں“ کے شر سے نہ بچ سکے، کارگل انٹرنیشنل سازش کے تانے بانے نہ جان سکے۔ جنرل پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999ءکی سازشی بُو نہ سونگھ سکے جبکہ انکی کچن کیبنٹ کے باقی ماندہ معتمد کا فرمان ہے کہ انہیں پرویز مشرف کی نیت اور سازش کا چند ماہ پہلے سے پتہ تھا (یہ بیان حزب اختلاف کی ذمہ داری کے دوران میڈیا میں چھپا اور سُنا گیا ہے) اور وقوعہ کے بعد موصوف چند ماہ انٹرنیشنل سفارتخانہ اسلام آباد میں مقیم رہے۔ قوم میاں صاحب پر اعتماد کرتی ہے اور میاں صاحب کے اپنے پتے ہَوا دینے لگتے ہیں۔ اس بار بھی فضا مختلف نہیں۔ میاں صاحب کی موجودہ کچن کیبنٹ اور اوپننگ ٹیم کے چھکوں نے قوم کے چھکے چُھڑا دئیے۔ بجٹ سابقہ غیر اعلانیہ حلیف حکومت سے بدتر دیا، مہنگائی کئی گنا بڑھا دی، پہلے تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا بعد ازاں اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈال دیا۔ گیس، پٹرول، بجلی کی قیمتیں بڑھا دیں اور جی ایس ٹی لگا کر روزمرہ اشیاءکی مارکیٹ قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ پانی، بجلی وغیرہ کے وزیر عوام کو تین سال صبر اور انتظار کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور عوام بخوبی جانتے ہیں کہ بعد ازاں نئے الیکشن کا موسم شروع ہو جائیگا۔ ایک ڈرون حملہ کیا ہُوا کہ ملک کے اندر بدترین دہشتگردی کی لہر شروع ہو گئی۔ میاں صاحب نے طالبان سے مذاکرات کا اعلان کیا۔ طالبان مذاکراتی قائد ولی الرحمن کو ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا اور میاں صاحب کی حکومت نے دوحہ قطر میں امریکہ طالبان مذاکرات کے اہتمام کا سہرا اپنے سر لے لیا۔ سابق حکومت نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں حامد کرزئی کو مہمان بلایا، میاں صاحب نے منموہن کو ازخود دعوت دے ڈالی اور بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا اعلان کیا اور پاک بھارت مذاکرات کو لاہور ریزولیشن (نواز واجپائی مذاکرات) سے ازسرنو شروع کرنے کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بھارت خود توانائی، بجلی اور گیس کی شدید کمی کا شکار ہے مگر میاں صاحب ببانگِ دہل بھارت سے مہنگے داموں بجلی خریدنے کے شوقین ہیں۔ کیا پاک بھارت امن، دوستی اور تجارت پاکستان کے حصے کے دریاﺅں کا پانی روک کر ممکن ہے؟ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنے دیس کو گھر نہیں بنایا، کیا گھر کے کمرے، برآمدے اور اشیاءبیچ کر گھر پر قبضہ بحال رہ سکتا ہے؟ جنرل پرویز مشرف نے امریکی دباﺅ کے تحت دہشت گردی کی جنگ میں غیر مشروط اور بلا مشاورت شرکت کی۔ کیا اس جنگ کے مختلف پہلوﺅں کا ازسرنو جائزہ ضروری نہیں ہے؟ دہشت گردی کی جنگ خانہ جنگی ہے جس میں پاکستان اپنے بچوں کو مار رہا ہے۔ عوام نے میاں صاحب کو سابقہ خدمات کے پیش نظر بہتری اور بہبود کیلئے ووٹ دیا ہے۔ کیا میاں صاحب نے ان امور کو اولین ترجیح دی؟ میاں صاحب نے جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی کی شق 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا آغاز کیا ہے۔ کیا میاں صاحب اور دیگر سابق جمہوری حکمران آئین کی ہر شق پر علمدرآمد کر رہے ہیں؟ آئین کی رو سے قرآن و سُنت سپریم لاءہے، کیا اسکی پاسداری کی جا رہی ہے؟ آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو سرکاری زبان ہونا حاہئے تھا، کیا یہ کام ہو گیا؟ فی الحقیقت پاکستان انٹرنیشنلزم کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا ہے جس میں نیشنلزم ماند پڑتا جا رہا ہے۔ انٹرنیشنل اورنیشنل کا سنگ میل ریمنڈ کی اسیری اور رہائی ہے۔ ریمنڈ کو پکڑنا نیشنلزم کا تقاضا تھا اور چھوڑنا انٹرنیشنلزم کا دباﺅ تھا۔ ریمنڈ کی رہائی کیلئے انٹرنیشنل اعلامیہ ”اعلان جنگ“ تھا۔ انٹرنیشنل قوتوں کا منصوبہ یہ تھا کہ لاہور پر بلندی سے بمباری کی جائے اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نیٹو کمانڈو اتار کر ریمنڈ کو لے جایا جائے نیز انٹرنیشنل قوتوں کا بیان تھا کہ پاکستان کے اندر ان کا آپریشنل نیٹ ورک مکمل ہے اب وہ فوج اور آئی ایس آئی کی مدد کے بغیر جب، جہاں اور جو چاہیں، کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کہا گیا کہ پاکستان کے حکمران اور اکابرین کے غیر ملکی بینک اثاثے منجمد کر دئیے جائینگے۔ ان کے غیر ملکی مال اور اولاد یعنی تجارت وغیرہ کی حفاظت ختم کر دی جائیگی اور آئی ایس آئی کے سفارتی ملازمین پر حملے کئے جائینگے۔ پاکستان کے موجودہ بدترین حالات میں بھی فوج اور آئی ایس آئی دشمن کیلئے سیسہ پلائی دیوار ہے اس کو عوام اور حکومت کے سہارے کی ضرورت ہے۔ جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو انٹرنیشنلزم کے دباﺅ میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ یعنی رحمان ملک کے سپرد کرنے کے درپے تھے اور جب معزول ہوئے اور ان کا اپنا بیٹا اغوا برائے تاوان ہوا۔ انہوں نے بالآخر یہ بیان دیا کہ فقط آئی ایس آئی انکے بیٹے کو بازیاب کرا سکتی ہے۔ دعا ہے کہ میاں صاحب بھی دوست اور دشمن کی شناخت کریں اور ”اپنوں“ کے شر سے بچیں۔ انکی کچن کیبنٹ نے عوام کے اندر بے چینی اور بددلی بڑھا دی ہے۔ پاکستان کو انٹرنیشنلزم کی کم اور نیشنلزم کی زیادہ ضرورت ہے۔