بجٹ ڈرامہ!
کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ پاکستانی ڈراموں کے شوقین ہیں گو آغا حشر کشمیری اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن ان کے خرمن کے خوشہ چینیوں نے آغا جی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ گزشتہ پینسٹھ برسوں سے ہر سال جون کے مہینے میں برسراقتدار طبقہ بجٹ ڈرامہ باقاعدگی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ڈرامے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ طربیہ اور المیہ! طربیہ ڈرامے وقتی طور پر حالات اور غربت کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لبوں پر ہنسی بکھیر دیتے ہیں۔ آدمی کو زندگی بڑی سہل اورسپھل دکھائی دیتی ہے۔ روح کی پژمردگی جاتی رہتی ہے المیہ ڈراموں میں ناظرین ہنستے نہیں روتے ہیں۔ اس سے بھی ایک عجیب قسم کا کتھارسز پیدا ہوتا ہے جو سفلی جذبات کو روئی کے گالوں کی طرح دھنک کر رکھ دیتا ہے۔ بجٹ ڈرامہ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کامیڈی اور ٹریجڈی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ لوگ پہلے ہنستے ہیں اور بعد میں گریہ و زاری کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جونہی وزیرخزانہ اسمبلی کے فلور پر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ انقلابی بجٹ پیش کر رہا ہے جس سے غربت ختم ہوگی، بھوک، ننگ اور افلاس کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اہل وطن کی عزت نفس بحال ہو گی تو لوگوں کا ہاسا نکل جاتا ہے وہ کھلکھلا کر اور تالیاں بجا کر آنے والے بجٹ کا سواگت کرتے ہیں بجٹ پاس ہوتے ہی جب مہنگائی کا عفریت اپنے مہیب جبڑے کھولتا ہے اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ اس حبس زدہ ماحول میں سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے تو پھر سارا سال آہ و فغاں اور گریہ زاری میں گزر جاتا ہے۔ جب وزیر خزانہ نوکر شاہی کی لکھی ہوئی بجٹ تقریر کو پڑھتا ہے تو اس میں بے شمار ہیرا پھیریاں اور ”گھمن گھیریاں ہوتی ہیں۔ تلخ حقائق پر شیریں الفاظ کا ملمع چڑھا ہوتا ہے عوام کا ”مکو ٹھپتے“ ہوئے وہ انہیں باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ کڑوی گولی دراصل تریاق کا کا م کریگی، بجٹ تقریر ختم ہوتے ہی حکومتی ممبران بغیر سوچے سمجھے تالیوں کے شور میں اسے انقلابی اور غریب دوست بجٹ قرار دیتے ہیں۔ اپوزیشن ہر سال ایک ہی نعرہ بلند کرتی ہے بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے جس میں محض الفاظ کی جادوگری کی گئی ہے۔ تھوڑی سی ” ہاﺅ ہو“ اور شور شرابے کے بعد زندگی اپنی پرانی ڈگر پر چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ موجودہ بجٹ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ حکومت کو آئے چند روز ہی ہوئے ہیں اور اسکے وعدوں کی بازگشت ہنوز فضا میں گونج رہی ہے۔ مزدور کی تنخواہ سولہ ہزار کر دینا، لوڈ شیڈنگ کا کچھ ماہ میں خاتمہ، غربت اور بے روز گاری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا وغیرہ! وزیر خزانہ خیر سے Fiscal spin master جناب ڈار صاحب ہیں گو پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاﺅٹنٹ ہیں لیکن اپنے آپ کو مالیاتی امور پر حرف آخر سمجھتے ہیں۔ عوام کی یادداشت بڑی کمزور ہے وگرنہ انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ یہ وہی حضرت ہیں جنہوں نے سابقہ دور میں پہلے تو لوگوں کو ملک میں ڈالر جمع کرانے کی ترغیب دی اور معقول منافع کا وعدہ کیا پھر راتوں رات ان کی ضبطی کا فرمان جاری کیا۔ جب حکومت ٹوٹی تو اس وقت خزانے میں نصف بلین ڈالر رہ گئے تھے۔ ڈار صاحب نے اس مرتبہ GST نہ صرف 16 سے 17فیصد کر دیا ہے بلکہ بجٹ کی منظوری سے قبل ہی اسکی کولیکشن بھی شروع کر دی۔ گو سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم نہیں ہو سکیں۔ گزشتہ پانچ سال میں سابقہ نااہل حکومت بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 15 سے بیس فیصد تک بڑھاتی رہی ہے۔ ڈار صاحب نے اسے بیک جنبش قلم ختم کر دیا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کو یہ ذاتی نوکر سمجھتے ہیں۔ جب ایپکا نے صدائے احتجاج بلند کی، ہڑتالیں شروع ہوئیں اور سب وشتم کا سلسلہ بڑھا تو بامر مجبوری انہیں 10فیصد اضافے کا اعلان کرنا پڑا لیکن ساتھ ہی سرکاری ملازمین کو زیر بار کرنے کیلئے بڑی دلچسپ بات کی۔ کمیٹی 7½ فیصد اضافہ کرنا چاہتی تھی لیکن میاں نواز شریف نے ذاتی مداخلت کرتے ہوئے کہا 10فیصد سے کم اضافہ انہیں قبول نہیں ہو گا۔ اس نرالی منطق پر ہمیں ایک پرانا لطیفہ یاد آیا ہے۔ ایک وکیل ملزم کو یقین دلاتا رہا کہ وہ بری ہو جائے گا۔ جب جج نے اسے دس سال کی سزا سنائی تو ملزم نے غصے سے بھری نظروں سے وکیل کو دیکھا۔ اس پر وہ جھٹ سے بولا کم بخت! شکر کرو۔ جج تو تمہیں پندرہ سال قید بامشقت کی سزا سنانا چاہتا تھا۔ میں ڈٹ گیا کہ دس سال سے ایک دن بھی اوپر نہیں ہونے دونگا، میاں نواز شریف اگر اضافہ پراپنا وزنی پاﺅں نہ رکھتے تو بیچارے ملازمین کو ڈھائی فیصد کا نقصان ہو جانا تھا۔ واہ ڈار صاحب! آپکی اڈاریاں قابل دید ہیں۔ پنجاب میں کچھ کم مالیاتی بزرجمہر نہیں ہیں۔ 2 کنال کے مکانوں پر ٹیکس لگا کر عمران خان کے ووٹروں کو ایک واضح پیغام دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پنجاب کے 34 اضلاع میں سے صرف تین کو اس کا سزا وار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس میں بھی مخصوص علاقوں کو نکال دیا گیا ہے۔ اس قسم کے امتیاز کی مثال بجٹ تاریخ میں نہیں ملتی۔ دیکھیں عدالتیں اس بارے میں کیا حکم صادر فرماتی ہیں -4 ابراہیم لنکن نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا۔ IT IS A GOVT OF THE PEOPLE , BY THE PEOPLE AND FOR THE PEOPLE ناقدین کہہ رہے ہیں کہ IT IS A BUDGET OF THE TRADERS, BY THE TRADERS AND FOR THE TRADERS اس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی دکانیں ہیں جو کم از کم لاکھ روپے روز منافع کماتی ہیں۔ دو کنال کے مکانوں کی طرح انہیں کیوں اس جال سے باہر رکھا گیا ہے۔ -5 ایک وقت تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں مخاصمت اور رسہ کشی انتہا پر تھی بجٹ تقریر کے دوران بہت شور و غل ہوتا تھا دونوں فریق ایک دوسرے کے خوب لتے لیتے تھے۔ ان دنوں سے سیکرٹری فنانس طارق فاروق نے بلایا کہنے لگے بجٹ تقریر لکھنی ہے۔ عرض کیا یہ نہایت خشک مضمون ہے۔ میں اعداد و شمار سے واقفیت نہیں رکھتا۔ بولے۔ یہ خشکی ہی تو دور کرنی ہے۔ یہ فنانس منسٹر کھوسہ صاحب کا حکم ہے۔ تم پہلا اور آخری حصہ لکھ دو۔ درمیان میں اعداد وشمار ہم بھر دیں گے تقریر ایک دم دھانسو ہو کڑک! پیپلزپارٹی کے چھکے چھوٹ جانے چاہئیں۔ انہیں اگر نانی نہیں تو مامی ضرور یاد آنی چاہئے۔ ایک ادھ شعر کا تڑکا بھی لگانا ہے۔ یہ سونے پر سہاگے کا کام کرے گا.... شام کا وقت تھا۔ میں نے تقریر لکھنا شروع کی۔ میرے ایک طرف طارق فاروق اور دوسری جانب ایڈیشنل سیکرٹری سمیع سعید بیٹھے تھے۔ جب تقریر مکمل ہوئی تو صبح کے سات بج رہے تھے۔ اسمبلی میں بجٹ تقریر کو بہت سراہا گیا۔ روزنامہ نوائے وقت نے لکھا یہ پہلی بجٹ تقریر ہے جس میں ادبی چاشنی تھی۔ جاوید محمود پرنسپل سیکرٹری وزیراعلیٰ نے سمیع سعید سے پوچھا ۔ اتنی اعلیٰ اردو تم نے کہاں سے سیکھی ہے؟ بولا اللہ کی دین ہے۔ چھپے رستم والا محاورہ تو یقیناً آپ نے سن رکھا ہو گا!