اظہار ناراضگی یا حکمت عملی!
تعجب کا ایک مدوجزر ہے‘ تجسس کے دائرے پھیل رہے ہیں‘ ابھی تو نہ کوئی الزام لگا نہ کوئی فرد جرم عائد ہوئی پھر جناب الطاف حسین ساری حدیں کیوں پھلانگ گئے اس برطانیہ کو جو ان کے نزدیک ان کی زندگی کی یقینی ضمانت ہے پوری دنیا کے سامنے اسے قاتل کا چہرہ دے دیا ان کے ان جملوں میں سنگینی کے جو ”الاﺅ“ دھک رہے ہیں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ”برطانوی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میری جان لے سکتی ہے‘ ایڈوانس بتا رہا ہوں مجھے مار دیا جائے گا۔ برطانوی حکومت اس خوبصورتی سے جان لے سکتی ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا ”ذہنوں میں اس سوال کا کلبلانا فطری عمل ہے کہ برطانیہ آخر ایسا کیوں کرے گا۔ اس سوال کا جواب لندن میں عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے آئینہ میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جس کا دائرہ جناب الطاف حسین کی رہائش گاہ تک دراز ہو گیا ہے۔ اس رہائش گاہ کی تلاشی‘ یہاں سے لے جائے جانے والی بعض اشیاءاور قبل ازیں مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ نے صورتحال کو کوئی ایسا رخ دے دیا ہے جس نے جناب اطاف حسین کے لئے تشویش اور فکر مندی کا سامان کر دیا ہے۔ جس کا اندازہ خود ان کے اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ”برطانیہ کی بہتری اس میں ہے کہ مجھے عمران فاروق کے قتل میں ملوث نہ کیا جائے“ یہ جملہ اس حقیقت کو واضح نشاندھی کر رہا ہے کہ انہیں اس قتل میں ملوث کرنے کی تیاریاں ہیں یا امکانات موجود ہیں اور برطانوی پولیس کو اس سلسلے میں عملی اقدامات کے لئے جن ثبوت و شواہد کی ضرورت ہے۔ وہ ان کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔ جناب الطاف حسین نے پارٹی قیادت سے استعفیٰ کے ذریعہ جو صورتحال پیدا کی جسے بعض حلقوں نے ڈرامے کا نام دیا ہے۔ اس حوالے سے اہم سوال یہ ہے کہ ان کے پارٹی قیادت سے استعفیٰ اور واپسی کیا برطانوی پولیس کو ان کے خلاف تفتیشی عمل سے روک سکتی ہے۔ برطانوی داروں کا انتہائی مستحکم نظام ہے حکوت پولیس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی اور نہ ہی پولیس ٹھوس ثبوت کے بغیر کسی عام شخص پرہاتھ ڈال سکتی ہے چہ جائیکہ ایک ایسی سیاسی جماعت کا سربراہ جو ایک ملک کی پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھتی ہو اور جس لیڈر کے لاکھوں چاہنے والے بھی موجود ہوں۔ جناب الطاف حسین نے جو سنگین الزامات پر مبنی خطاب کیا اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ جسے ایک آخری کوش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دینے کا اعلان اور پھر مخصوص افراد کا کارکنوں کی جانب سے ردعمل بالخصوص سندھی اور پشتون افراد کی جانب سے استعفیٰ واپس لینے کا مطالبہ‘ پھر استعفیٰ کی واپسی اور کراچی میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر کے آفس کے باہر احتجاجی مظاہرہ دراصل سیاسی قوت کا مظاہرہ تھا پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی موجودگی میں سنگین الزامات پر مبنی خطاب کیا محض ناراضگی کا اظہار تھا۔ فرض کیا جناب الطاف حسین کی گرفتاری عمل میں آ جاتی ہے اور جنوبی افریقہ سے آنے والے دو افراد نے تفتیش کے دوران جو انکشافات اور اعتراضات کئے ہیں وہ اس گرفتاری کو جواز فراہم کر دیتے ہیں تو اپنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے جن لوگوں کے ذہن بنا دئیے ہیںکہ ان کی بے گناہی کو جرم بنایا جا رہاہے۔ انہیں ناکردہ گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔ تو فطری طور پر وہ شدید ردعمل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہ ردعمل کراچی کی سڑکوں پر طوفانی صورتحال پیدا کر سکتا ہے اس ردعمل کے بطن سے امن و امان کا مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔ اور اس اشتعال کا سب سے زیادہ نشانہ جو چیز بن سکتی ہے وہ کراچی میں برطانیہ کی جانب سے کی جانے والی بھاری سرمایہ کاری ہے۔ اس کے بعد جو دوسری چیز سب سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ افغانستان سے کراچی کے ذریعہ نیٹو سامان کی واپسی ہے اور جو ملک دشمن قوتیں کراچی میں پہلے ہی دہشت گردی ‘ ٹارگٹ کلنگ اور دیگر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اس فضا میں انہیں مزید کھل کھیلنے کا موقع ملے گا اور مفروضہ کے طور پر اگر ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو اس میں برطانیہ کے لئے تشویش کا پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیا اس تشویش ناک صورتحال سے بچنے کے لئے برطانوی حکومت ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس سے لندن میں جنم لینے والا منظر نامہ تبدیل ہو جائے۔ بہر حال یہ سب کچھ سندھ حکومت کے ذمہ داروں کے بھی پیش نظر ہو گا اور اس حوالے سے ممکنہ احتیاطی تدابیر پر بھی غور و خوص کیا ہو گا۔ سکیورٹی کے اداروں کی بھی اس امکانی صورتحال پر نظر ہو گی کسی ایسی صورت میں سندھ حکومت کا رویہ کس حد تک نظر انداز کرنے والا ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ اس تازہ ترین حکومتی اقدمات سے لگایا جا سکا ہے کہ سندھ حکومت نے 1997ءکا بلدیاتی نظام جو متحدہ قومی موومنٹ کے مطالبہ پر واپس لیا گیا تھا دوبارہ نافذ کر دیا ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں ٹاﺅنز اور متعلقہ ایڈمنسٹریشن کا سیٹ اپ ختم کر دیا ہے۔ جو دراصل ایم کیو ایم سے مفاہمتی عمل کے مکمل خاتمہ کا اعلان ہے۔ الطاف حسین نے اپنے خطاب میں برطانوی حکومت اور پولیس پر جو سنگین الزامات عائد کئے ہیں اس پر برطانوی عوام نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ادھر برطانوی حکومت ان کی تقریر کا انگریزی ترجمہ کرا رہی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ہمدردی کے راستے خود بند کرنے کے مترادف ہے انسانی زندگی ایسے مشاہدات سے خالی نہیں ہے۔ کہ جب تدبیریں الٹی ہو جایا کرتی ہیں۔