• news

جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف میں فرق

12 اکتوبر1999ءکو جنرل پرویز مشرف کا طیارہ ہائی جیک کرنے کے الزام میں میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ پرویز مشرف پی آئی اے کی پرواز پی کے 805 میں 198 مسافروں سمیت سفر کر رہے تھے۔ طیارہ کولمبو سے آ رہا تھا اور اسے کراچی ائرپورٹ پر اترنے نہ دیا گیا۔ ہوائی جہاز کے کپتان ثروت حسین نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ اس کے پاس زیادہ تیل نہیں ہے لہذا جہاز کو نواب شاہ ائرپورٹ پر اترنے کی اجازت مل گئی۔ جنرل پرویز مشرف12 اکتوبر1999ءکو جس طرح برسراقتدار آئے۔ یہ کہانی کسی سنسی خیز جاسوسی فلم سے کم دلچسپ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہوا میں اڑتے آرمی چیف جس کا نیچے اپنے ادارے کے ساتھ رابطہ منقطع ہے ایسے میں فوج، پاکستان میں چوتھی کامیاب ملٹری کُو دیتاMilitary Coup d'etat(حکومت میں انقلاب) کر دے تو کیا یہ ہالی وڈ کی کسی کہانی سے مختلف نہیں؟ اس ملٹری Coup d' etat کے برپا ہونے پر پاکستان کے دانشوروں نے اس کو پاکستان کے اندر تیار کی گئی ملٹری کوُدیتا قرار دیا۔پاکستان میں اس چوتھی بغاوت کے بعد خطے اور پاکستان کے اندر کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ منصوبہ سازی کرنے والے سامراج نے خطے میں ایک نئی پالیسی کو عمل پذیر کرنا تھا۔12 اکتوبر1999 کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کر کے مارشل لا نافذ کر دیا۔ پرویز مشرف اپنے آپ کو روشن خیال اور لبرل کہتے ہےں۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے منشور میں یہ جملہ چھپا ہے ”روشن خیال قوم کے طور پر دنیا سے تعلقات“اب میں دوسرے فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کا ذکر کرتا ہوں جو رجعت پسند کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس فرق کو واضح کرنا چاہتا ہوں یعنی ایک رجعت پسند اور دوسرا ترقی پسند۔ مگر طیارہ دونوں میں قدر مشترک ہے۔ ایک طیارے نے اقتدار ختم کیا، دوسرے طیار ے نے اقتدار دلوایا۔4 جولائی 1977ءکو شام کے وقت امریکی سفارت خانے میں امریکہ کے قومی دن کے موقع پر چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل ضیاءالحق وردی میں تقریب میں شامل ہوئے۔ اسی رات ذوالفقار علی بھٹو نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا جو رات کو دیر کے ساتھ نشر ہوئی۔ کانفرنس کے نشر ہونے کے بعد رات اڑھائی بجے وزیراعظم ہاﺅس میں فون کی گھنٹی بجی اور ضیاءالحق نے وزیراعظم کو اطلاع دی کہ ”آپ کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ اقتدار مسلح افواج نے سنبھال لیا ہے سر! ہم نوے دن کےلئے آئے ہیں۔ الیکشن کروانے کا کام فوج کرے گی اور اگر آپ دوبارہ منتخب ہو گئے تو ہم آپ کو سلیوٹ کریں گے۔ آپ ہماری حفاظت میں ہیں۔ پارلیمنٹ توڑ دی گئی ہے ا ور ملک میں مارشل لاءکا نفاذ کر دیا گیا ہے“ مسٹر بھٹو نے تھوڑی دیر بعد اپنے آپ کو مارشل لاءحکام کی تحویل میں دے دیا۔یہ نوے دن گیارہ برسوں پر محیط ہوئے یعنی جنرل ضیاءالحق 1977سے1988ءتک بر سراقتدار رہے اگر وہ فضائی حادثے کا شکار نہ ہوتے تو یہ اقتدار مزید طویل ہو سکتا تھا۔ ضیاءالحق کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جس تاریک دور کا آغاز ہوا وہ پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔  فروری 1985ءمیں جنرل ضیاءالحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے جس کے نتیجے میں محمد خاں جونیجو کو وزیراعظم بنایا گیا۔ 29 مئی 1988ءکو جنرل ضیاءالحق نے اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم جونیجو کو برطرف کر دیا۔ جونیجو حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ کے بعض اراکین نے جنرل ضیاءکا ساتھ دیا۔ میاں نواز شریف کو جنرل ضیاءنے اپنی عبوری حکومت میں شامل کر لیا۔17 اگست 1988ءکو جنرل ضیاءایک فضائی حادثہ میں چل بسے۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں سنسر شپ بہت سخت تھا۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کے اشعار بھی سنسر کی زد میں آ جاتے۔ مثلاً علامہ اقبال کے اس قسم کے اشعار کیسے ہضم ہو سکتے تھے....
کہ تُو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد۔۔۔ دستور نیا، اور نئے دور کا آغاز
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام۔۔۔ پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام 
مجھے یاد ہے کہ ایک اخبار (نوائے وقت نہیں) نے سنڈے میگزین ٹائٹل پر ضیاءالحق کی تصویر کے سامنے فوجی بوٹ چھاپ دیئے۔ ابھی پرچا آﺅٹ نہیں ہوا تھا۔ ایک روز قبل دفتر کے کسی شخص نے اس کی نشاندہی کی ا ور کہا کہ ممکن ہے ضیاءالحق یہ نہ سمجھے کہ بوٹ مجھے دکھائے جا رہے ہیں چنانچہ راتوں رات ٹائٹل پھاڑ کر صبح میگزین تقسیم کیا گیا۔پاکستان کی66 سالہ تاریخ میں 34 سال فوج نے حکومت کی۔ باقی 32 سال بیوروکریٹوں، غیر منتخب سیاست دانوں اور منتخب سیاست دانوں نے حکومت کی۔ یہ ریکارڈ مایوس کن ہے۔ پاکستان کا پہلا فوجی حکمران عوام کی سرکشی کے نتیجے میں رخصت ہوا۔ دوسرا مارا گیا۔ مشرف کا کیا بنے گا؟ اسے غداری اور دیگر مقدموں کا سامنا ہے۔ ان مقدمات کے فیصلوں تک آپ کو انتظار کرنا ہو گا۔ 

ای پیپر-دی نیشن