• news

امریکہ افغانستان میں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرے

مجھے خبر نہ تھی کہ پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولسن افغانستان کی تاریخ سے اتنے بے خبر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جان بوجھ کر انہوں نے یہ بات کی ہو گی کہ ہم امریکی افغانستان میں روس والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ روس افغانستان میں افغان لوگوں کی بحالی کے بغیر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ امریکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی قربانیوں سے واقف ہے۔ پھر میرا خیال ہے کہ امریکی صرف کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی قربانیوں سے باخبر ہیں۔ ان سے بڑا بے خبر اس حوالے سے کوئی نہ ہو گا ورنہ وہ کبھی بھارت کو پاکستان پر ترجیح نہ دیتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روس کو افغانستان سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ کریڈٹ بھی پاکستانی افواج کا ہے۔ افغان مجاہدین کو پاک فوج نے ٹرینڈ کیا اور افغان جہاد میں ان کی قیادت بھی کی۔ تب ایک بھی امریکی سپاہی افغانستان میں نہ تھا۔ البتہ امریکی امداد اسلحے وغیرہ اور انٹیلی جنس کی صورت میں حاصل تھی۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل ضیاءاس حوالے سے سب سے آگے تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل حمید گل بھی عسکری لیڈروں میں سے تھے۔ جنرل حمید گل تو آج بھی افغان جدوجہد کے لئے سرگرم ہیں۔ جنرل ضیاءکے صاحبزادے اعجازالحق بھی آج کل بہت نمایاں ہیں۔غلطی تو امریکہ نے روس والی کی کہ وہ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور قابض ہونے کی خواہش کی اور کوشش بھی کی۔ یہ ایک ازلی ناکام کوشش ہے۔ یہاں آنے والے نے پسپائی اور رسوائی پائی بدنامی اور ناکامی ان کا مقدر ہوئی۔ امریکہ نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ سوویت یونین (روس) کے آخری صدر روس کی شکست و ریخت کے چشم دید گواہ گورباچوف نے کئی بار امریکہ کو وارننگ دی کہ افغانستان نہ جاﺅ۔ اگر چلے گئے ہو تو عزت کے ساتھ واپس آ جاﺅ مگر عزت کے ساتھ افغانستان سے واپسی جارح قوم کی قسمت میں ہی نہیں ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ سوویت یونین (روس) سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہو کے امریکہ افغانستان سے نکلے گا۔ وہ پاکستان کو بھی برباد کرنا چاہتا ہے مگر بربادیاں اور بدنامیاں امریکہ کی تاریخ کا عنوان بنیں گی۔پاکستانی قبائلی علاقہ امریکہ کا قبرستان بنے گا۔ برصغیر کو 100 برس تک اپنے کنٹرول میں غلام رکھنے والا برطانیہ اپنے ہی خون میں ڈوب کر پاکستانی قبائلی علاقے اور افغانستان میں اتنا بیزار ہواکہ اس کی فریادیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ قبائلیوں نے صرف ایک ڈاکٹر کو زندہ واپس جانے دیا تاکہ وہ جا کے گوروں کو بتائے کہ ان کے ساتھ کیا بیتی۔ اس سے پہلے سکندراعظم کو منہ کی کھانا پڑی۔ حملہ آور افغانستان کے راستے سے برصغیر پر حکومت قائم کرتے رہے مگر راستے میں رک نہ سکے۔ انگریزوں نے میرے ضلع میانوالی کو پنجاب میں شامل کر لیا۔ میانوالی بنوں کی تحصیل تھی۔ روس نے سمجھا کہ اس نے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ وہ یہاں سے بے سروسامانی میں نکل گیا۔ جنرل ضیاءیہ چاہتا تھا کہ ابھی افغانستان کے ساتھ یکجہتی قائم رکھی جائے تاکہ وہ اتنی بڑی جنگ کے بعد سنبھل سکے مگر امریکہ نہ مانا اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے ذریعے جنرل ضیاءکو تنہا کرنے کی کوشش کی۔ صدر ضیاءکا موقف تھا کہ اس ساری صورتحال میں پاکستان کا بھی کچھ حق ہے۔ شاید امریکہ کو معلوم تھا کہ صدر ضیاءاب بھارت کا رخ کرے گا۔ خالصتان کی تحریک کی کامیابی یقینی تھی اور پھر مقبوضہ کشمیر خود بخود ہمیں مل جاتا۔ ہمارے دریاﺅں پر بھی بھارت کا قبضہ نہ ہوتا۔ پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں، غداروں کے ذریعے صدر ضیاءکو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ پاکستان کے ہر حکمران کا یہی حشر ہوا جس نے پاکستان کے لئے تھوڑی سی بھی حمیت کا مظاہرہ کیا۔ بینظیر بھٹو کی حکومت میں اعتزاز احسن نے سارے حریت پسند سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دے دیں اور اس طرح کہانی تاریخ نہ بن سکی۔ پاکستان کے ہر نئے حکمران نے امریکہ کی فرماں برداری میں پہلے سے زیادہ غلامی کی۔ افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی۔ امریکہ تماشا دیکھتا رہا۔ خانہ جنگی میں طالبان ایک مضبوط اور مربوط طاقت بن کر ابھرے اور ایک مستحکم افغان حکومت قائم کی جو ایک اسلامی حکومت تھی۔ ہمیں طالبان سے اختلاف ہے مگر وہ ایسے نہیں کہ افغان حکومت پر حملہ کرکے سارے شہروں کو تورا بورا بنا دیا جائے جنرل حمید گل نے بہت بامعنی اور گہری بات کی۔ نائن الیون بہانہ افغانستان ٹھکانہ پاکستان نشانہ۔ ہم اس وقت دہشت گردی قتل و غارت اور معاشی زوال کی زد میں ہیں۔امریکہ نے مجاہدین کو دہشت گرد بنا دیا القاعدہ بنائی ہی امریکہ نے تھی مگر اب وہ ہماری دنیا کی ایک دشمن تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ یہ بھی ہونے والا ہے کہ دہشت گرد پھر مجاہدین سمجھے جائیں جو لوگ افغانستان میں اپنی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں وہ فریڈم فائٹر ہیں۔ حریت پسند جنگجو ہیں۔ امریکہ ان سے عاجز آیا ہوا ہے جن طالبان پر حملہ کیا ان سے مذاکرات کرنے پر امریکہ مجبور ہوا ہے۔ امریکہ جہاں عسکری طور پر کامیاب نہیں ہوتا وہاں مذاکرات کے بہانے سے اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتا ہے مگر امریکہ کی عزت بچتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ امریکہ جتنا ترقی یافتہ ہے افغان اتنے ہی پسماندہ۔ امریکہ کب افغانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ برادرم اسلم خان کا یہ جملہ کس قدر قابل غور ہے۔ ”افغانوں کو ان کی پسماندگی اور قدامت نے بچا لیا ہے۔“امریکہ اب افغانستان سے نکلنے کی صورت میں بھارت کو وہاں اپنا جانشیں بنا کے جانا چاہتا ہے۔ یہ قطعی طور پر ناممکن ہے اور بہت بڑی غلطی ہے۔ روس اور امریکہ کے بعد افغان کس طرح بھارت کو ٹکنے دیں گے۔ یہ غلطی امریکہ نہ کرے اور بھارت کسی صورت میں اس غلطی کا شکار نہ بنے ورنہ وہ افغانوں کے لئے بہت آسان شکار بن جائیں گے۔ امریکہ تو غلطیوں کا ہجوم اکٹھا کر رہا ہے جو ایک جلوس بنے گا اور یہ مظاہرہ امریکہ کے خلاف ہو گا۔ یہ نئی غلطیاں جو کسی نے بھی نہیں کیں۔ روس ایسا سوچ بھی نہ سکتا تھا؟ اب امریکی تھنک ٹینک تھک گئے ہیں اور بوکھلا کر اپنے ہی خلاف فیصلے کر رہے ہیں جو فاش غلطیاں ہیں۔ اس طرح امریکہ کا اپنا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ برطانیہ اور روس نے ایک ایک غلطی کی تھی۔ مگر امریکہ نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہ تاریخ کو سبق سکھانے کے موڈ میں ہے؟ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں امریکی سفیر نے جو کچھ کہا۔ وہ میرے لئے حیرت انگیز ہے پاکستان میں امریکی سفیر ایک تجربہ کار ماہر سفارت کار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی سفیروں سے زیادہ اہمیت پاکستان میں امریکی سفیر کی ہوتی ہے۔ ان سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنے ملک میں ذمہ دار حلقوں کو سمجھائیں کہ افغانستان میں ان کا کوئی عمل بھی بیکار ہو گا بلکہ بے معنی ہو گا۔ پاکستان کی قربانیوں کے ادراک کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کو ہر معاملے میں شریک کیا جائے اور بھارت پر اعتماد نہ کیا جائے۔ پاکستان کبھی امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچائے گا۔ بھارت اپنے مفادات کی دیکھ بھال کرے گا۔ جب پاکستان افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کر رہا تھا تو بھارت سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ روس کو بھی سوچنا چاہئے کہ بھارت دوستوں کے معاملے میں کتنا مخلص اور ثابت قدم ہے۔ تب بھارت بالکل غیر جانبدار بن گیا تھا۔میں نے نسٹ کا ادبی میگزین دیکھا ہے ”نسٹین“ جسے ایک سچے پاکستانی دانشور اور صحافی ممتاز اقبال ملک نے مرتب کیا ہے۔ پاکستانیت کی خوشبو اس بیش بہا رسالے سے پھوٹ کر پورے پاکستان میں پھیل رہی ہے وہ امریکہ تک بھی جا سکتی ہے۔ رچرڈ اولسن سے گزارش ہے کہ وہ اس رسالے کا مطالعہ ضرور کریں اور پھر ایک بار شاندار ادارے نسٹ میں خطاب کریں۔

ای پیپر-دی نیشن