مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
آج میں کالم میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے والا تھا۔ ممبر پنجاب اسمبلی ثمینہ خاور حیات آجکل پورے ایوان میں چھائی ہوئی ہیں۔ میں اس بارے میں بات کروں گا مگر اس دوران قلعہ دیدار سنگھ ضلع گوجرانوالہ سے خاقان بابر کا فون آ گیا۔ اس کے بتانے پر میں نے نوائے وقت میں یہ خبر دیکھی۔ وہاں نوائے وقت کے نمائندے نے لوگوں سے بات کی۔ ایم پی اے چودھری اشرف وڑائچ نے بھی ہمارے نامہ نگار سے بات کی۔ چھٹی جماعت کی طالبہ زینب نے آدھے سے زیادہ قرآن پاک حفظ کر لیا تھا وہ کرنٹ لگنے سے فوت ہو گئی۔ اُسے گیارہ بجے رات دفن کر دیا گیا۔ صبح قبرستان سے گزرتے ہوئے لوگوں نے دیکھا کہ بارہ برس کی مرحومہ بچی کی لاش برہنہ حالت میں باہر پڑی ہوئی ہے۔ کسی درندہ صفت نے لاش کی بے حرمتی کی۔ پورے علاقے میں کہرام مچ گیا۔ بچی کا باپ منیر بٹ لاری اڈہ میں ریڑھی لگاتا ہے۔ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ میڈیکل سٹاف بھی آ گیا۔ ان لوگوں کو اتنی ہی دردمندی اور سرگرمی سے اپنی ڈیوٹی دینا چاہئے۔ ایس پی ملک لیاقت ڈی ایس پی سٹی نعیم اللہ ایس ایچ او حسن فاروق بھی فوری طور پر پہنچ گئے۔ ایم پی اے چودھری اشرف وڑائچ نے کہا کہ یہ واقعہ شہباز شریف کے نوٹس میں لائیں گے۔ کچھ کام اپنے طور پر کر لینا چاہئے۔ انتظامیہ اور پولیس نے دلچسپی لی ہے تو وہ غیر ضروری تفتیش کے تکلفات میں نہ پڑیں اور فوری طور پر مجرم کا کھوج لگا کر اسے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ عدالت سے بھی گذارش ہے کہ انصاف میں تاخیر بے انصافی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے وزیراعلیٰ کے احکامات کے انتظار میں بیٹھے نہ رہا کریں۔ ان کا جو کام ہے وہ دل لگا کر کریں۔ اپنے دل کی گواہی کے ساتھ فیصلے کریں اللہ کا حکم پہلے دل میں آتا ہے اور وہ حکمران کے حکم سے زیادہ اہم ہے کہ اللہ احکم الحاکمین ہے۔ پنجاب کے نئے نئے آئی جی خان بیگ کو اللہ نے پنجاب پولیس کا سربراہ بنایا ہے۔ اب پنجاب میں کسی کے ساتھ بے انصافی ہو گی تو وزیراعلیٰ سے پہلے آئی جی پنجاب خان بیگ ذمہ دار ہوں گے۔ وہ قلعہ دیدار سنگھ میں پیش آنے والی درندگی کا نوٹس لیں۔ ذاتی طور پر مداخلت کریں۔ اب تو مرنے والے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ ایک چیلنج ہے۔ پنجاب پولیس ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز محترمہ نبیلہ بی بی پولیس اور عوام کے درمیان اچھے روابط کے لئے میڈیا سے مسلسل رابطے میں رہتی ہیں۔ سی سی پی او کے طور پر شفیق گجر کی تعیناتی بہت خوش آئند ہے۔ وہ دلیر اور دیانتدار پولیس افسر ہیں۔ مگر یہ کیسا ظلم ہوا ہے کہ مجھے یہ شعر بار بار یاد آ رہا ہے۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گےمر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے٭٭٭٭٭پنجاب اسمبلی میں بظاہر اپوزیشن ننھی منھی ہے مگر وہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے۔ رانا ثنااللہ اس سے پیار کرتے رہ جائیں گے اور اپنے ارکان روٹھ جائیں گے۔ محمودالرشید اپوزیشن لیڈر ہیں اور ثمینہ خاور حیات ان کے ساتھ ہیں اور یہی کافی ہے۔ رانا صاحب محتاط رہیں عظمٰی بخاری نے کہہ دیا ہے کہ وہ جس انداز میں اپوزیشن کر رہے ہیں تو اچھے لگتے ہیں۔ جب ثمینہ خاور حیات اپنی سیٹ سے اٹھنے کا ارادہ کرتی ہیں تو سرکاری بینچوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ڈر جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں جب سپیکر رانا محمد اقبال نے وزیراعلیٰ کی تعریفیں شروع کر دیں تو ثمینہ خاور حیات نے انہیں روکا۔ جو باتیں رانا صاحب نے کیں۔ غلط نہ ہونگی مگر سپیکر کے منہ سے اچھی نہ لگیں۔ ثمینہ بولنے لگتی ہیں تو ان کا مائیک بند کر دیا جاتا ہے مگر اس طرح زبان بندی تو نہیں کی جا سکتی۔ صدر زرداری کے لئے مشہور ہوا تھا۔ اک زرداری سب پر بھاری۔ وہ صدر پاکستان ہیں تو یہ سیاست کر رہے ہیں۔ ابھی وہ ایوان صدر میں ہیں لہٰذا مشکلات نوازشریف کیلئے پیدا کی جا رہی ہیں۔ نوازشریف خود بھی اپنے لئے یہ مشکلات پیدا کرنے میں خودکفیل ثابت ہو گئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭قومی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کراچی میں امن کے لئے پاک فوج کو بار بار دعوت دینا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ یہ دعوت تو پچھلے دور حکومت میں بھی فوج کو دی جاتی تھی۔ تب توہین نہ تھی۔ اب پارلیمنٹ نے اور نئی حکومت نے کیا کر لیا ہے۔ دہشت گردی قتل و غارت بھتہ خوری بڑھ گئی ہے۔ الطاف حسین کے اس جملے کا جواب چودھری صاحب نے دیا ہے؟ پاکستان ٹائی ٹینک ہے اور ڈوب رہا ہے۔ اس ٹائی ٹینک میں الطاف حسین نہیں بیٹھے ہوئے۔ شاید چودھری صاحب کے پاس بھی متبادل انتظام ہو مگر ہم تو بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم نہیں ڈوبیں گے۔ نہ ڈریں گے۔ ہمارا وطن ہمارے لئے سمندر ہے۔ ہمیں ڈوبنے سے یہ خود بچائے گا۔ کنارے پر کھڑے لوگ ڈوب جائیں گے۔ دیکھو تو سہی کنارے پر کون کون کھڑا ہے۔ اور تماشا دیکھ رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ میں قومی اسمبلی میں عمران خان کا استقبال کروں گا۔ جب عمران خان تقریر کر رہے تھے نوازشریف اسمبلی میں موجود نہ تھے۔ نجانے انہوں نے کہاں عمران کا استقبال کیا ہو گا۔ ورنہ تقریر کے بعد جس طرح چودھری نثار اور عمران خان نے تپاک سے ایک دوسرے کو گلے سے لگایا۔ کسی ڈیل کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ ہم نے سوچا تھا کہ پیپلز پارٹی فرینڈلی اپوزیشن کو مفاہمتی اپوزیشن بنا لے گی۔ عمران خان اسے اتحاد اپوزیشن بنائے گا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بھی تو چلانا ہے؟ میرا خیال ہے نوازشریف بھی اس طرح حکومت چلائیں گے جیسے صدر زرداری نے چلائی ہے۔ مخدوم امین فہیم نے تو کہہ دیا کہ نوازشریف ہماری مہربانیوں سے جیتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں تیسری بار وزیراعظم بننے کی پابندی نہ اٹھائی جاتی تو شاید شہباز شریف وزیراعظم ہوتے اور چودھری نثار وزیراعلیٰ پنجاب ہوتے۔ بے چارے مخدوم امین فہیم کو قائد حزب اختلاف ہونا بھی نصیب نہیں ہوا۔ جس طرح جاوید ہاشمی کو ڈپٹی پارلیمانی لیڈر ہونا بھی نصیب نہیں ہوا۔ دونوں کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے امیدوار نامزد کر کے ٹرخایا گیا۔ ہاشمی کے لئے حافظ حسین احمد کا یہ جملہ امید کی کرن ہے۔ نوازشریف کو اپنا لیڈر کہنا کسی دن جاوید ہاشمی کے کام آئے گا۔ کہتے ہیں پنجاب میں اپنے لوگوں کو صدر زرداری نے خود ہروایا ہے۔ اس طرح نوازشریف کے جیتنے کے امکان بڑھ گئے تھے۔ اپنے علاقے میں بہت مقبول پیپلز پارٹی کے ایک ہارنے والے سیاستدان نے یہ بات بڑے دکھ سے کہی ہے۔ ہارنے کا دکھ نہیں مگر اس طرح ہارنے کا دکھ ہے۔ اپنے شعر میں تھوڑی سی ترمیم کر لیں۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ ”ہر“ جائیں گے”ہر کے“ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے