لاپتہ افراد کیس: مسئلہ حل ہونے تک ہمیں نیند نہ آئیگی‘ حساس ادارے کے افسر اپنی ضمانتیں کروا لیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ اے پی اے) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کسی سے زیادتی نہ ہو، صرف قانون کی پاسداری چاہتے ہیں، قانون زیرحراست افراد کو ان کے اہل خانہ سے ملاقات کا حق دیتا ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے لاپتہ افراد کیس میں حراستی مراکز، ان میں تعینات کمانڈنٹس اور زیرحراست افراد کی تفصیلات جمع کرادی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ کے پی کے میں 7 حراستی مراکز میں 517 افراد زیر حراست ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ جب تک لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا مجھ سمیت بنچ میں شامل کسی جج کو نیند نہیں آئے گی ہم چاہتے ہیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو‘ لوگ پریشان ہیں ان کو ان کے پیاروں تک رسائی نہیں دی جارہی‘ ابھی تو ہم نے صرف سرسری سا حکم دیا تھا اور تمام فہرست پیش کردی گئی یہی کام اگر سابقہ حکومت کرنا چاہتی تو کرسکتی تھی، کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک بہن کو ایک سال چار ماہ سے زیر حراست بھائی سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی، اس کی زندگی سسکیوں اور آہوں میں بسر ہورہی ہے، ایک لاپتہ شخص ذاکراللہ کے والد زندگی کی بازی ہار گئے اور اپنے بیٹے سے ملاقات نہیں کرسکے‘ جب تک ایک بھی لاپتہ شخص موجود ہے چین سے نہیں بیٹھیں گے اور نہ ہی کسی کو چین سے بیٹھنے دیں گے‘ کس کا جرم جتنا بھی بڑا ہو اس کی آئین و قانون میں سزا موجود ہے پھر اس طرح کی زیادتیوں سے کیا مل جائے گا‘ حساس ادارے کے جو افسران لاپتہ افراد کے مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث ہیں وہ کسی مجاز عدالت سے اپنی ضمانتیں کروالیں‘ بہت ہوگیا‘ اب لاپتہ افراد کے لواحقین کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے‘ جو حکم بھی جاری کرنا پڑا تو کریں گے کسی سے خوفزدہ نہیں جس نے جو کرنا ہے کرلے، لاپتہ افراد ضرور بازیاب ہوں گے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ مبینہ طور پر ملوث افسران تحقیقات کیلئے خود کو پیش کردیں تو ان کے حوالے سے سوچا جاسکتا ہے ۔ مسعود جنجوعہ کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ مسعود جنجوعہ کی بازیابی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جو تحقیقات کی تھی اب ان کی روشنی میں حساس ادارے کے افسران کیخلاف ٹرائل شروع کرنے کا وقت آگیا ہے، ڈاکٹر عمران منیر کی وڈیو لنک کے ذریعے گواہی بھی ریکارڈ کی جاسکتی ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے سیکرٹری دفاع سمیت چاروں ایڈووکیٹ جنرلز سے تفصیلی مشاورت کرلی ہے۔ کیس میں پیشرفت ہونے کا قوی امکان ہے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ لوگ پریشان ہیں کہ ان کے پیاروں تک ان کی رسائی کیسے ہوگی۔ حراستی افراد بیمار ہیں اور ان تک گھر سے جو بھی سامان بھجوایا جاتا ہے وہ ان تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کسی شخص کا لاپتہ ہو جانا سنجیدہ معاملہ ہے ابھی یہ پنجاب اور کے پی کے کی فہرست ہے۔ بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔ نصراللہ کی ماں بھی قریب المرگ ہے۔ سپریم کورٹ لٹھ لے کر بیٹھی ہوئی ہے کہ ان کی ملاقات کروائیں پھر جاکر آگے پیشرفت ہوتی ہے۔ غلط بیانی قبول نہیں کریں گے یہ تمام حاضر سروس افسران ہیں وہ اگر چاہیں تو ضمانت کرالیں وہ جواب نہیں دے رہے ۔ پولیس کو مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔صوبے جائزہ لیں، لوگوں کو اٹھالیا جاتا ہے اور وہ دیکھتے رہتے ہیں اس کیس کے حوالے سے رپورٹ دی جائے کہ حساس ادارے کے افسران کیخلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔ 15 جولائی تک رپورٹ پیش کی جائے۔