این آئی سی ایل کیس میں پیشرفت نہیں ہو رہی‘ موجودہ حکومت کا رویہ بھی سابق جیسا ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد (اے پی اے) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کا رویہ بھی سابق دور حکومت جیسا ہے، تین سال گزر گئے این آئی سی ایل کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی تحقیقات صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی۔ کام کرنے کی ترجیحات طے کی جائیں۔ سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ کیس کے حوالے سے پہلے ترجیحات طے کر لی جائیں کہ ریکوریوں، اراضی اور تقرری کے معاملات کو کیسے چلانا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس کیس کی تفتیش میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں، عدالت سے درخواست ہے کہ اس کیس میں پہلے توہین عدالت کی کارروائی مکمل کی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ شاید آپ لوگوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ملزمان خالد انور، قاسم دادا بھائی اور جاوید سید کو واپس نہیں لانا، محض رپورٹیں داخل کی جا رہی ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کیس 25 جولائی کے لئے فکس کر رہے ہیں، اس روز کیس کو مکمل کریں گے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز نیازی کی تقرری کے حوالے سے کیا کارروائی ہوئی ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا جبکہ لاہور اراضی کے معاملے میں بھی 42 کروڑ کی ریکوریاں ابھی تک باقی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ محسن وڑائچ بیرون ملک فرار ہو گئے لیکن ایف آئی اے نے انہیں واپس لانے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی ضمانت منسوخ کرنے کے حوالے سے کوئی ایکشن لیا۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم نے آپ کو گذشتہ سماعت پر کہا تھا کہ حکومت کو بتا دیں کہ جن افسران کو توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے انہیں پروموٹ کیا جا رہا ہے اس سے جگ ہنسائی ہوتی ہے دو سال سے کیس لگا ہوا ہے مگر ابھی تک کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ شاہ خاور نے عدالت کو کہا کہ جن لوگوں کو توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے ان کیسز کو چلایا جائے۔