دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کے باوجود امریکہ نے امداد روک کر مشکلات پیدا کیں‘ ایبٹ آباد کمشن رپورٹ کی مزید تفصیلات
اسلام آباد (آن لائن) سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان تعاون کے نتیجے میں سینکڑوں شدت پسندوں کا گھیرا تنگ کیا گیا جن میں القاعدہ کے ہائی ویلیو ٹارگٹ بھی شامل ہیں، آئی ایس آئی نے 891 کارروائیوں میں القاعدہ کے 866 افراد ہلاک کئے جن میں 100 اہم رہنما شامل تھے۔ آئی ایس آئی نے 922 القاعدہ کے افراد کو گرفتار کیا ان میں بھی 96 ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے اس تنظیم کے بیالیس نیٹ ورک تباہ کئے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی قربانیوں کے باوجود امریکہ نے فوجی اور سویلین امداد روک کر مشکلات میں اضافہ کیا، اکثر پاکستانیوں کو یقین ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سودے بازی سے صرف حکمرانوں کو فائدہ ہوا ہے۔ یہ بات ایبٹ آباد میں ا±سامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے تحقیقاتی کمشن نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال‘ عباس خان‘ اشرف جہانگیر قاضی اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد کی مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شروع سے ہی غیریقینی رہے ہیں، کچھ حد تک یہ تعلقات عالمی طاقت کے زیراثر رہے پاکستان کی حکومتوں کی امریکہ سے شراکت داری کے نتیجے میں عوام یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں بہت سی مایوسیوں بحرانوں اور منفی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا یہ تعلقات حقیقت میں عوامی سطح پر شفاف یا ایماندارانہ شراکت پر مبنی نہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شراکت داری کو بہتر اور غلط اندازوں سے آگاہ کیا جائے امریکہ اور پاکستان کے بہت سے یکساں پالیسی مقاصد ہیں۔ خطے کے بارے میں امریکی پالیسیاں اس شراکت داری کو آگے بڑھانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور 2014 ءکے بعد ممکنہ پالیسیاں ایران کے خلاف جنگ کا خطرہ ‘ چین سے بڑھتی ہوئی منافرت ‘ بھارت کے ساتھ امریکہ کی حقیقی سٹریٹجک شراکت داری اور دیگر امور ہیں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو محدود کردیا ہے۔ اگر ان چیزوں کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں اور اس سے خطے میں استحکام آسکتا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2 مئی کو ایبٹ پر حملے کے بارے میں کئی قسم کی رائے کا اظہار کیا گیا ہے ایک طرف تو یہ شراکت داری زیادہ تر امریکی اقتصادی اور فوجی امداد پر مبنی ہے اور دوسری جانب امریکہ پاکستان کو استعمال کرتا ہے۔ یہ شراکت داری مشترکہ ثقافت ‘ سیاسی نقطہ نظر اور سٹریٹجک مفادات کی بنیاد پر جڑ نہیں پکڑ سکی۔ جس سے کئی چیلنج سامنے آئے ہیں پاکستان کے بڑے حریف بھارت کے ساتھ سرد جنگ کے بعد سے امریکی سٹریٹجک پارٹنر شپ اس کا اہم نقطہ ہے پاکستان امریکہ کے بھارت کے ساتھ سویلین جوہری تعاون کے بارے میں پالیسی کو مسترد کرتا ہے اسی طرح سرحد پر حملے پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں ڈرون حملوں اور خصوصی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں جانی و مالی نقصان ہوا۔ جس کے باعث بہت سے پاکستانی سمجھتے ہیں امریکہ پاکستان کیلئے آج کا سب سے بڑا بیرونی خطرہ ہے۔ 11 ستمبر 2001 ءسے پہلے جنرل مشرف کی قیادت میں پاکستان نے القاعدہ اور طالبان کے درمیان واضح فرق کی پالیسی اپنائی، افغانستان میں حربی گہرائی کے لئے طالبان سے تعاون کیا تاہم 9/11 کے بعد امریکی نتائج سے خوفزدہ ہوکر طالبان کے خلاف جنگ کے مطالبات تسلیم کئے گئے۔ جس سے 7 اکتوبر 2001 ءکو افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کی راہ ہموار ہوئی اور اس کے بعد اس ملک میں تباہی پھیلی، افغان عوام کو جہنم میں دھکیل دیا گیا۔ ان میں خاص طور پر اس ملک کے وہ مشرقی و جنوبی علاقے شامل تھے جو پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں پاکستان نے اس جنگ میں امریکی اتحادی بننے کافیصلہ کیا اگرچہ اقوام متحدہ نے دہشت گردی اور اسامہ بن لادن کے بارے میں کئی قرار دادیں منظور کیں لیکن سلامتی کونسل نے کوئی ایسی خاص قرار داد منظور نہیں کی جس میں افغانستان میں فوجی مداخلت کی اجازت دی گئی ہو۔ امریکی کی افغانستان میں غیر قانونی مداخلت اور تسلط میں تعاون پر پاکستان کو 2004 ءمیں بڑے نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا گیا موثر فوجی اور سویلین امداد کے پیکج کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد امریکیوں کیلئے ایسی ویزا پالیسی جاری کی گئی جس کی کوئی نگرانی نہیں تھی تاکہ سی آئی اے کو پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع مل سکے۔ درحقیقت یہ امریکی امداد کی شرط تھی۔ اس طرح یکطرفہ طور پر اسامہ بن لادن کی تلاش میں سہولت دی گئی۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان تعاون کے نتیجے میں سینکڑوں شدت پسندوں کا گھیرا تنگ کیا گیا جن میں القاعدہ کے ہائی ویلیو ٹارگٹ بھی شامل تھے آئی ایس آئی نے 891 کارروائیوں میں القاعدہ کے 866 افراد ہلاک کئے جن میں 100 اہم رہنماءشامل تھے آئی ایس آئی نے 922 القاعدہ کے افراد کو گرفتار کیا ان میں بھی 96 ہائی ویلیو ٹارگٹ تھے۔ اس تنظیم کے بیالیس نیٹ ورک تباہ کئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اس تعاون کی قیمت جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ملک میں عدم استحکام کے طور پر ادا کرنا پڑی ہزاروں شہری مارے گئے۔ ہزاروں فوجیوں کی جانیں گئیں بڑی تعداد میں لوگ زخمی اور زندگی بھر کیلئے معذور ہوئے لاکھوں شہری بے گھر ہوئے حتیٰ کہ امریکہ کے غیرقانونی ڈرون حملوں سے جانی و مالی نقصان میں بڑا اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ نفسیاتی مریض بنے۔ یہ قیمت خاص طور پر درمیانے طبقے کو برداشت کرنا پڑی ان نقصانات میں مزید اضافہ امریکہ نے فوجی اور سویلین امداد روک کر کیا۔ امریکہ نے کبھی پاکستان کی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا۔ 2008 ءمیں امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر مائیک میکونل نے مبینہ طورپر آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا سے تکرار کی اور دعویٰ کیا کہ آئی ایس آئی جہادیوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ صدر اوباما نے یہ معاملہ صدر زرداری سے بھی اٹھایا مغربی حکام نے بھی الزام لگایا کہ 2002ءسے 2007 ءکے درمیان پاکستان کو دی گئی فوجی امداد کا ستر فیصد غلط انداز میں خرچ کیا گیا۔ 11 جون 2008 ءکو گورا پرائی کے علاقے میں پاک افغان سرحد پر حملے میں فرنٹیئر کور کے دس اہلکار مارے گئے پاک فوج نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے جارحیت قرار دیا۔ سرحد پر امریکی اور پاکستانی فوجوں کے درمیان کئی جھڑپیں ہوئیں 2 مئی کو ایبٹ آباد حملے کے بعد امریکی فورسز نے سلالہ سرحدی علاقے میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 24 پاکستانی فوجیوں کو قتل کیا، امریکی صدر نے اس پر معافی مانگنے سے بھی انکار کیا اور مریکی فوج نے امریکی تحقیقات میں دونوں فریقوں کو ذمہ دار قرار دیا جس سے پاکستان میں غم و غصہ اور بڑھ گیا۔ دونوں فریق یہ سمجھ گئے کہ یہ حکومت پاکستان کیلئے سوچا سمجھا پیغام ہے کہ امریکہ اپنے مطالبات کیلئے سب کچھ کر سکتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک وقت کے شراکت دار ممالک حقیقت میں آمنے سامنے آگئے اور وہ اگر دشمن نہیں تو حریف ضرور بن گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایبٹ آباد میں امریکی حملے سے تین ماہ قبل بدنام ریمنڈ ڈیوس کیس ہوا جب ایک امریکی پرائیویٹ سکیورٹی کنٹریکٹر نے دن دیہاڑے دو پاکستانی موٹر سائیکل سواروں کو گولی ماردی جو اس کے دعوے کے مطابق اس کے لئے خطرہ بن گئے۔ بعد ازاں امریکہ نے اس قاتل کو سفارتکار تسلیم کرنے پر زور دیا اور نامزد سفارتکار نہ ہونے کے باوجود امریکہ نے اس کے لئے اعلیٰ سطحی رابطے منقطع کر دیئے، غیرقانونی مطالبات شروع کردیئے جو پاکستانی کی سلامتی اور وقار کے خلاف ہیں تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ اپنے اصولی موقف پر نہ ٹھہر سکی اور فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی۔ ایبٹ آباد کمشن نے سفارشات میں آئندہ 2مئی جیسے قومی وقار کے منافی واقعات سے بچنے کیلئے اس بات پر زور دیا ہے کہ دفاع اور سکیورٹی پالیسیوں سمیت قومی پالیسی کے تمام پہلوﺅں کی تشکیل اور عملدرآمد کو نمائندہ سویلین کنٹرول میں لایا جائے۔ اہم پالیسی امور پر فوجی بالا دستی کا خاتمہ ہونا چاہئے اور ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنایاجائے۔ تمام اداروں پر سویلین کنٹرول اور جمہوریت کی حکمرانی کے بغیر 2مئی جیسے توہین آمیز واقعات کا سلسلہ جاری رہے گا اور کسی مرحلے پر ایسے واقعات ہماری بقاءکے لئے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ کمشن نے قرار دیا کہ سول انٹیلی جینس اداروں اور سول ملٹری انٹیلی جنس اداروں کے درمیان باہمی رابطوں کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ کے محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرز پر ایسی ایجنسی قائم کی جائے جو ملک میں کام کرنیوالی 8اہم خفیہ ایجنسیوں کے کام میں تال میل پیدا کر سکے۔ خفیہ ایجنسیوں کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر جانے سے روکنے کیلئے ان پر سویلین اور پارلیمانی نگرانی قائم کی جائے۔ آئی ایس آئی جیسے باوسائل اور طاقتور اداروں نے اکثر اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا لیکن ان سے کوئی بازپرس نہیں کی گئی۔ کمشن نے قرار دیا کہ انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے پاس زیادہ اختیار اور جواب دہی کے فقدان نے پاکستان کی بطور سیاسی ناکامی کیلئے شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ کمشن نے سفارش کی کہ غیرملکی حکومت کے ساتھ تمام زبانی معاہدے ختم کئے جائیں۔ کمشن نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی عمارت میں توسیع کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے امریکہ کے پاکستان میں گہرائی تک سرایت کرنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ کمشن نے سفارش کی ہے کہ پاکستان میں سی آئی اے کا نیٹ ورک اور دہشت گرد انفراسٹرکچر کا خاتمہ قومی ترجیح ہونی چاہئے۔ رپورٹ میں اعلیٰ سطح کے پاکستانی حکام پر فرائض سے غفلت برتنے اور نااہلی کا الزام لگایا گیا ہے۔ کمشننے اس بات پر حیرانی کا بھی اظہار کیا ہے کہ 2011ءمیں ہی ایک اور شدت پسند رہنما کی ایبٹ آباد میں گرفتاری کے بعد اس بات پر غور کیوں نہیں کیا گیا کہ شہر میں کون لوگ مقیم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے پاکستانی فضائیہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ امریکی ہیلی کاپٹروں کو مار گرائیں تاہم یہ احکامات جب تک دئیے گئے تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ مبینہ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ 2003ءمیں راولپنڈی سے گرفتار ہونیوالے خالد شیخ نے دوران تفتیش بھی اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔