کامران فیصل کیس: دو بورڈز کی مختلف رپورٹس ہیں ‘ بادی النظر میں تحقیقات مکمل نہیں کی گئی: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں نیب کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی پراسرار ہلاکت سے متعلق کیس کی سماعت میں مقتول کے والد کو تحقیقاتی ٹیم سے متعلق خدشات اور دیگرمواد عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت اگست کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ واقعہ کی صاف و شفاف تحقیقات ہونی چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ کامران فیصل رینٹل پاور پروجیکٹس سے متعلق تحقیقات کررہا تھا، یہ معاملہ پبلک انٹرسٹ میں تھا عدالت اس لئے کیس میں دلچسپی لے رہی ہے۔ عدالتی معاون انور کمال نے بتایا کہ 19 جنوری 2013ءکو پنجاب فورنزک لیبارٹری اور 28 مئی کو اتھالوجی ڈیپارٹمنٹ نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹس دیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گردن کی ہڈی ٹوٹی ہے جبکہ دوسری رپورٹ کے مطابق ہڈی میں صرف فریکچر آیا ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ دو بورڈز کی مختلف رپورٹس ہیں ، بادی النظر میں مقدمے کی تحقیقات مکمل نہیں کی گئی۔ دوران سماعت کامران فیصل کے والد کے وکیل آفتاب باجوہ نے عدالت میں ایک تصویر پیش کی اور کہا کہ کامران فیصل نے پاﺅں میں جوگر پہنے ہیں اور اس کے ساتھ نیب کا اہلکار بھی موجود ہے جبکہ جو تصویر نیب کے پاس ہے، اس میں کامران فیصل کے پاﺅں ننگے ہیں اور نیب کا اہلکار بھی موجود نہیں ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو مزید بتایا کہ کامران فیصل کی ایف آئی آر غیر آئینی کاٹی گئی کیونکہ رپورٹ میں خودکشی ڈکلیئر کیا گیا جبکہ میڈیکل بورڈ پر بھی تحفظات ہیں۔ ریکارڈ کوضائع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ٹیسٹ کے لئے پندرہ سیمپلز لئے گئے جن میں سے چھ کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ بادی النظر میں اگر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور ایف آئی آر کے مطابق یہ خودکشی تھی تو تحقیقات ابھی تک کیوں چل رہی ہے، اس پر کے کے آغا خان نے عدالت کو بتایا کہ اگر کامران فیصل کے والد کو تحقیقاتی ٹیم یا پوسٹ مارٹم پر تحفظات تھے تو آئی او کے ذریعے مجسٹریٹ کو بتایا جانا چاہئے تھا۔