وزیراعظم کو آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر میں سوا پانچ گھنٹے تک بریفنگ‘ ریاستی اداروں کے درمیان تعاون سے دہشت گردی کا خاتمہ کرینگے: نوازشریف
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + اے پی اے) وزیراعظم نوازشریف نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔ سرتاج عزیز، چودھری نثار، شہباز شریف اور دیگر بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام نے سکیورٹی صورتحال پر وزیراعظم کو بریفنگ دی اور وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو قومی سلامتی کے امور اور اندرونی و بیرونی خطرات سے آگاہ کیا۔ جنرل کیانی بھی موجود تھے۔ نوازشریف نے اس موقع پر ہدایت کی کہ اہم قومی امور پر وزیراعظم آفس کو اپ ڈیٹ رکھا جائے۔ وزیراعظم کو جن امور پر بریفنگ دی گئی ان میں دہشت گردی کے حوالے سے اقدامات اور افغان سرحدی صورتحال بھی شامل تھے۔ نوازشریف نے اس موقع پر کئی سوالات کئے۔ نئی مجوزہ سکیورٹی پالیسی بھی زیر بحث آئی۔ نوازشریف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف قوم کو متحدہ ہونا پڑےگا اور اس ناسور کے خاتمے میں پوری قوم کو سیاسی و فوجی قیادت کیساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑیگا، قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، سکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے باہمی تعاون اور مربوط رابطوں سے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ تمام انٹیلی جنس اور قومی سلامتی سے وابستہ ادارے اپنے باہمی رابطوں اور تعاون کو بڑھائیں، ملک دشمن عناصر کے عزائم کو ناکام بنا کر پاکستان کو ایک بار پھر ایک پرامن ملک بنا سکتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر صرف اور صرف پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنا نا چاہتے ہیں مگر ہمیں فخر ہے کہ پاک افواج اور اس کے ذیلی ادارے ان کو منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری حکومت معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے مگر اس کیلئے شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ماضی میں بہت غلطیاں ہو چکیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہم ایسی پالیسی بنائیں جس کا فائدہ آنیوالی نسل کو ہو۔ پاکستان میں ماضی میں بھی شدت پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے کئی پالیسیاں اور اجلاس منعقد ہوئے مگر اس ضمن میں کوئی ٹھوس اور واضح حکمت عملی اس لئے سامنے نہیں آ سکی کیونکہ حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ نوازشریف نے چودہ سال بعد آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا جہاں انہیں جنرل ظہیر الاسلام نے بریفنگ دی۔ اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ادارے کے دیگر اعلیٰ حکام نے ملک کی مجموعی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اپنے دورے کے دوران وزیراعظم اور آئی ایس آئی کے درمیان قومی سلامتی سے متعلق پالیسی پر اہم مشاورت ہوئی۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو تباہ و برباد کر دیا جائے جبکہ ہم پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف قوم کو متحد ہونا پڑےگا اور اس ناسور کے خاتمے میں پوری قوم کو سیاسی و فوجی قیادت کیساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا پڑیگا۔ میاں نوازشریف نے کہا کہ ہم بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں مگر ہماری اس کوشش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کی تشکیل کے لئے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی۔ تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی ضروری ہے۔
اسلام آباد (سکندر شاہین / نیشن رپورٹ) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فوجی قیادت نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں بریفنگ کے دوران وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں سیاسی قیادت کی طرف سے فوجی آپریشن کی شدید مخالفت کے باعث انسداد دہشت گردی اور باغیوں کے خلاف مہم بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ پرتشدد کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کو سپانسر کرنے والے غیر ریاستی عناصر سے نمٹنے کے لئے ان کے خلاف آپریشن ضروری ہے۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور ریاستی اداروں کے درمیان باہمی تعاون اور روابط کے ذریعے دہشت گردی کو شکست دی جائے گی۔ وزیراعظم آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں 5 گھنٹے 20 منٹ تک رہے، وزیراعظم نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دہشت گردی کے خطرے کی پیشگی اطلاع دینے کا جامع میکنزم بنانے کی ہدایات بھی دیں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان رابطے م¶ثر اور مربوط بنانے پر زور دیا اور ہدایت کی کہ اہم قومی امور پر وزیراعظم آفس کو فوری اپ ڈیٹ رکھا جائے۔ یہ بھی طے کیا کہ وزارت داخلہ انٹیلی جنس ایجنسیز کے درمیان م¶ثر رابطے کا کردار ادا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے لاپتہ افراد سے متعلق بھی آئی ایس آئی حکام سے استفسار کیا جبکہ ایبٹ آبا د کمشن کی رپورٹ کا حوالہ دے کر انٹیلی جنس ایجنسیز کے کردار پر بھی بات کی۔ قومی سکیورٹی پالیسی کی تیاری میں سکیورٹی اداروں کے تحفظات اور خدشات کو مدنظر رکھنے پر اتفاق ہوا۔