آبی ذخائر کی تعمیر میں غفلت
پاکستان میں معاشی بدحالی کی بڑی وجہ توانائی کے منصوبوں سے پہلو تہی ہے۔ توانائی کو سستے ذرائع سے حاصل کرنے کے بجائے صرف کمیشن کے حصول کیلئے مہنگے منصوبوں کو ترجیح دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام بے بس و لاچار ہو رہے ہیں۔ جس طرح گذشتہ کالم میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے آخر تک ہماری بجلی کی پیداواری استعداد 25,259 میگاواٹ ہو جائے گی۔ جبکہ اس گذشتہ شدید گرمیوں میں 4 جولائی 2012 کو بجلی کی ڈیمانڈ 18,713 میگاواٹ پائی گئی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے کوئی ایسا منصوبہ بنانے کی قطعاً ضرورت نہ ہے جس کی پیداواری لاگت 18 روپے سے بھی زائد ہو۔ بلکہ ایسے پراجیکٹ شروع کرنے چاہئیں جو ہماری پیداواری لاگت کو کنٹرول کر سکیں۔ اس کیلئے ہائیڈل منصوبوں سے بہتر کوئی منصوبے نہیں۔ مگر حکومت کے ایوانوں میں بیٹھی مخصوص لابی ڈیموں کی تعمیر سے مسلسل اجتناب کروا رہی ہے۔ یہ لابی بظاہر ڈیموں کی مخالف نظر نہیں آتی۔ مگر ڈیموں کے حوالے سے ایسا پروگرام بنایا جاتا ہے جس سے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یہی لابی کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ 16 ستمبر 1991 کو مشترکہ مفادات کونسل نے صوبوں کو ہدایت بھی کی گئی کہ وہ کالاباغ ڈیم کی سیاسی مخالفت کے خاتمے کیلئے صوبوں کی عوام میں آگہی پیدا کریں۔ ڈیموں کے ذریعے ہائیڈل پاور سستی ترین بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ ڈیموں کے حوالے سے حکومت پاکستان ہر سال اربوں کے خطیر فنڈز استعمال کرتی ہے۔ انڈس واٹر ٹریٹی میں پاکستان میں متاثرہ فریق راوی ستلج اور بیاس کی وادی ہے جو پنجاب کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے اری گیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب پر پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پانی کی کمی کا بغور جائزہ ہی نہ لے بلکہ ہر نئے بننے والے پراجیکٹس کی افادیت کے بارے میں اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کریں۔ اس وقت تو یہ کہنا مقصود ہے کہ منگلا جھیل کی اپ رائزنگ کیلئے منصوبہ بناتے وقت اریگیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو معلوم تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ڈیم کی سطح اونچا کرنے کے بعد اسکی Reservoir Capacity تو بڑھ جائیگی مگر پانی جمع نہ ہو گا۔ چنانچہ منگلا ڈیم کی گراف اٹھا کر دیکھ لیں۔ پانی کی سطح سابقہ ڈیم کے لیول سے کم ہی رہتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ارسا، سندھ طاس معاہدہ کی روشنی میں عمل نہیں کر رہا۔ اس طرح چناب جہلم زون کو سندھ طاس معاہدہ کیمطابق پانی کی فراہمی نہیں کی جا رہی۔ حتٰی کہ جب خریف میں دریائے کابل کا وافر پانی جمع ہوتا ہے جب بھی C-J زون کو دریائے سندھ سے پانی مہیا نہیں کیا جاتا۔ مگر اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کا متعلقہ شعبہ خاموش تماشائی کی طرح صرف پانی کی تقسیم کے فارمولے ہی میں سر کھپائے رکھتا ہے۔ یہ کام معمولی درجہ کا ضلعدار/ ڈپٹی کلکٹر ایک ایکسین کے ساتھ مل کر بھی انجام دے سکتا ہے۔ اگر منگلا ڈیم کو اونچا کرنے والی رقم سے پہلے نیلم جہلم پراجیکٹ کی تکمیل کر لی جاتی تو آج International Court of Arbitration میں ہمیں ہزیمت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہی نہیں: کشن گنگا ڈیم کے مسئلہ میں اصل متاثرہ فریق تو پنجاب ہے جسکے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری اریگیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے متعلقہ شعبہ انڈس واٹر کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ دریائے چناب اور جہلم کے ساتھ بھارت جب بھی کوئی چھیڑ چھاڑ کریگا اسکے براہ راست اثرات صوبہ پنجاب پر پڑینگے مگر کشن گنگا کیس میں پنجاب اریگیشن کا متعلقہ شعبہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ باخبر ذرائع کے مطابق انہوں نے اس کیس پر رتی بھر توجہ بھی نہ دی۔ اور ان عوامل کو بھی ظاہر نہ کیا جس کی وجہ سے ہم کیس جیت سکتے تھے۔ میں برملا کہتا ہوں اس کا سراسر نقصان صوبہ پنجاب کو تین چار سال بعد دکھائی دیگا۔ اگر 1987ءتک کالاباغ ڈیم مکمل ہو چکا ہوتا تو اب تک صرف بجلی کے بلوں کی مد میں 100 ارب ڈالر بچ چکے ہوتے۔ اس سے کہیں زیادہ کی ملکی معیشت میں اضافہ ہو چکا ہوتا۔ تربیلا اور منگلا ڈیم کا ڈیزائن بجلی کیلئے نہیں بلکہ زرعی مقاصد کیلئے بنایا گیا تھا۔ چنانچہ زراعت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے پانی ریلیز کرنا پڑتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی جھیل محض ایک سال میں مکمل ہو سکتی ہے۔ جس سے نہ صرف تربیلا ڈیم کو بیک اپ ملے گا، اسکی بجلی کی استعداد بڑھائی جا سکتی ہے بلکہ سلٹ کی صفائی کیلئے بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے اسی طرح کالاباغ ڈیم بننے سے سندھ طاس معاہدے کے مطابق C-J (چناب، جہلم) زون کو دریائے سندھ سے فیڈ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح منگلا ڈیم کو بھرنے میں آسانی ہو گی۔ اس طرح کالاباغ ڈیم کے شروع ہونے کے محض ایک سال بعد سے ہی اسکے فوائد حاصل ہونا شروع ہو جائینگے۔ جس سے توانائی کے بحران میں ہی کمی نہیں ہو گی بلکہ پانی کی کمی بھی دور ہو جائیگی۔ ڈیم کی تکمیل کے بعد توانائی کے بحران اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جائیگا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کی 60 لاکھ ایکڑ اراضی مزید آباد ہو گی۔ جس میں 23 لاکھ ایکڑ سندھ کی، 19 لاکھ ایکڑ پنجاب کی، 8 لاکھ ایکڑ خیبر پی کے کی اور 10 لاکھ ایکڑ اراضی صوبہ بلوچستان کی آباد ہو گی۔