سانحہ ایبٹ آباد کی رپورٹ افشا کرنا فوج اور انٹیلی جنس کے خلاف منظم کارروائی ہے: حمید گل
اسلام آباد (آئی این پی + اے پی اے + ثناءنیوز + آن لائن) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل نے کہا ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال میں ایک بیرونی چینل کے ذریعے سانحہ ایبٹ آباد کی رپورٹ افشا کرنے کا عمل مسلح افواج اور انٹیلی جنس کے خلاف منظم کارروائی ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے صورتحال پر چیف جسٹس افتخار چودھری کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس کا نوٹس لیا جانا حاہئے۔ تحقیقات ہونی چاہئے کہ رپورٹ ملکی میڈیا کی بجائے بیرونی چینل کو کس نے فراہم کی۔ انہوں نے کہا پوری فوج اور آئی ایس آئی کو بے توقیر کرنے کال عمل ظاہر کر رہا ہے کچھ لوگ دشمن کے مقاصد کیلئے کام کر رہے ہیں جنہیں بے نقاب کیا جانا چاہئے۔ ممتاز قانون داں ایس ایم ظفر نے حکو مت کو تجویز دی ہے کہ ایبٹ آباد کمشن کی افشا ہونے والی معلومات اگر حقیقی رپورٹ سے قریب ہیں تو حکومت قومی مفاد میں انہیں عام کر دے۔ تجزیہ کاروں، سیاستدانوں اور دیگر کی جانب سے کئے گئے تبصرے، ایبٹ آباد کی افشا ہونے والی اسی رپورٹ پر ہی کئے جا رہے جس کے بارے میں کمشن کا کہنا ہے کہ وہ مستند نہیں۔ عوام کو ذہنی اذیت سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت رپورٹ جاری کر دے۔ حکومت کو چاہئے کہ اصل رپورٹ کا جاری کئے گئے حصوں سے موازنہ کر کے درست حصے جاری کرے۔ ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ جاری کرنا ملک کے مفاد میں ہے، رپورٹ جاری کر کے حکومت اپنی شفافیت کا ثبوت دے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ رپورٹ کا شائع کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے، تو اس معاملہ کو سرکاری ترجمان کے ذریعے واضح کرے۔ حکومت کو اس حصے کو بھی جاری کر دینا چاہئے جو اب تک جاری نہیں ہوا ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ زیادہ خراب ہوتا جائے گا۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے ایبٹ آباد کمیشن کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بطور پاکستانی سفیر بلااجازت ویزے جاری کئے اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کی پاکستان آمد کے ذمہ دار بھی حسین حقانی ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے نیوی سیلز جنہوں نے اسامہ بن لادن کو کھوج نکالا، وہ ویزے لے کر پاکستان میں داخل نہیں ہوئے تھے، ویزا کے معاملے پر اس پورے تنازعے کو اس لیے تیار کیا گیا ہے کہ دو اہم سوالات پر سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اپنی حدود سے تجاوز کرنے والی سکیورٹی ایجنسیاں اسامہ کو تلاش کرنے میں نو سال تک کیوں ناکام رہیں؟ دوسرا سوال یہ کہ امریکی سیلز ہماری سکیورٹی فورسز کی مزاحمت کے بغیر کس طرح پاکستان میں داخل ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد کمشن نے 19 دسمبر 2011ءکو اسلام آباد میں ان کا انٹرویو کیا تھا جس کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ اس وقت انہیں ویزوں کے سرکاری ریکارڈ تک رسائی حاصل نہیں لیکن کمشن نے اپنی رپورٹ میں ان کا یہ جواب شامل نہیں کیا۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد ویزوں کے اعداد و شمار حکام کی جانب سے سفارت خانے کو فراہم کیے گئے تھے، اس لئے جو کچھ کہا جارہا ہے وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ ایسے افراد جنہیں پاکستان کا ویزا جاری کیا گیا وہ پاکستان میں روپوش نہیں، ان کا ریکارڈ اب بھی ایئرپورٹ کے حکام کے پاس موجود ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں اور غیرملکیوں کا ناصرف ریکارڈ موجود ہے بلکہ خفیہ ایجنسیاں چاہیں تو ان کو تلاش بھی کر سکتی ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ کے لیک ہونے سے ملک کا کوئی نقصان نہیں ہوا، آئندہ سب کو اپنی غلطیوں کی اصلاح اور کمزوریوں کو دور کرنا ہو گا، رپورٹ کے معاملے پر 17 جولائی کو کمیٹی کا اہم اجلاس بلا لیا ہے جس میں ارکان سے مشاورت کے بعد سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 1990ءمیں سب سے پہلے ایک انگریزی اخبار میں حمود الرحمن کمشن رپورٹ شائع کر دی تھی جسے مشرف دور میں پبلک کیا گیا۔