ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے افشا کی ٹائمنگ
جنرل کیانی کی ریٹائر منٹ میں اب کوئی زیادہ وقت باقی نہیں رہا۔تو یہ ضروری ہے کہ انہوں نے اپنی ملازمت کا پورا عرصہ عزت سے گزار لیا ہے تو انہیں عزت کے ساتھ جانے دیا جائے۔
جنرل کیانی نہ تو جنرل اسلم بیگ ہیں کہ جن سے جمہوریت کو خطرہ محسوس ہو رہا ہو۔نہ وہ جنرل آصف نواز ہیں اور نہ جنرل کاکڑ اور نہ جنرل جہانگیر کرامت، بلکہ وہ جنرل مشرف بھی نہیں ہیں۔اس لئے کہ انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ سیاست اور حکومت میں دخل نہیں دیں گے اور انہوں نے ایک سے ایک نادر موقع ملنے کے باوجود اپنے حلف سے غداری نہیں کی، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان میں ہمت نہیں تھی، اس کی وجہ یہ بھی نہیں تھی کہ ان کے راستے میں جمہوریت پسندوںنے کوئی دیوار کھڑی کر دی تھی، بلکہ صرف اس لئے کہ انہوں نے قوم کو زبان دی تھی، قول پر پورا اترنا مشکل ہوتا ہے مگر انہوںنے پورا اتر کر دکھایا۔
اسامہ بن لادن کے سلسلے میں ان سے کیاکوتاہی ہوئی۔ کیا یہ کہ وہ ان کا سراغ نہیںلگا سکے یا یہ کہ انہوں نے اسامہ کو خود پناہ دے رکھی تھی۔پتہ نہیں ایبٹ ا ٓباد کمیشن رپورٹ میں ان پر کیا الزام عائد کیا گیا ہے مگر میں اس قوم سے پوچھتا ہوں کہ کتنے لوگ ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ جنرل کیانی کو اسامہ کا سراغ لگا کر اسے امریکہ کے حوالے کر کے اربوںڈالر کا انعام حاصل کر لینا چاہئے تھا، آخر اسامہ کے سر کی قیمت لگائی گئی تھی ، کئی اور لوگوں کے سروں کی قیمت بھی لگائی گئی تھی اور جنرل مشرف نے ان میں سے بیشتر کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیاا ور ڈھیر سارے ڈالر اینٹھے۔مگر قوم کے کسی ایک فرد نے مشرف کے اس سودے کو پسند نہیں کیا اس لئےجنرل کیانی ایساکرتے تو میں یقین سے کہتاہوں کہ پوری قوم اس فعل کو نا پسند کرتی۔تو پھر کونسا جرم ہے جسے میڈیا میں بار بار اچھالا جا رہا ہے۔
میڈیا کی بات ہی کیا کرتے ہیں ، یہی میڈیا تھاجس نے لال مسجد میں کاروائی نہ کرنے پر مشرف کو سخت سست قرار دیا تھا۔یہاں تک کہا کہ آئی ایس آئی کے صدر دفتر کے سامنے چند گز کے فاصلے پر اسلحے کا ڈھیر کیسے لگ گیا ، مورچے کیسے تعمیر ہو گئے اور ماہر نشانہ باز لال مسجد اور مدرسے کے میناروں پر کیسے چڑھ کر بیٹھ گئے، ڈنڈا بردار لڑکیاں اسلام آباد میں دکانیں کیسے توڑتی پھریں اور چین جس سانحے کو آج تک نہیں بھولا، چینیوں کے ایک کاروباری مرکز میں چینی خواتین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا اور جب حکومت نے میڈیا کے بار بار اکسانے پر آپریشن کیا تو ظلم کی داستانیں بیان کی گئیں اور نوحے پڑھے گئے۔
میڈیا کو شاید یاد نہ ہو کچھ لوگ حرم مکہ پر بھی قابض ہو گئے تھے، وہ اس کے تہہ خانوں میں مورچے لگا کر بیٹھ گئے مگر سعودی حکومت نے ان کے خلاف آپریشن کیا ، میں یہ نہیں بتاتا کہ کس کی مدد سے کیا لیکن تہہ خانے میں زہریلی گیس چھوڑی گئی اور یوں حرم کعبہ کو خالی کروایا گیا، اس دوران طواف معطل رہا ، یہ ایک الگ سانحہ تھا مگر میڈیا کی کسی آنکھ سے حرم کے تہہ خانوں میںمورچہ بند لشکر کے لئے نہ تو ایک آنسو ٹپکا، نہ ان کے نوحے لکھے گئے، نہ ان پر ظلم کی داستانیں بیان کی گئیں۔ میڈیا ایک سو اسی ڈگری پر گھوم سکتا ہے، اور یہ ایک مخصوص میڈیا ہے جو صرف پاکستان کے مفاد پر ضرب کاری لگانے کے فن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل ہے، وہ بیرونی دشمنوںکے اشارے پر پاک فوج کو روگ آرمی بھی کہنے سے نہیں کتراتا۔
ایبٹ آباد کا سانحہ ایک کربلا تھا، اس پر پوری قوم دلفگار تھی اور قوم کے نمائندوںنے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس سانحے پر غور کیا ،اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا نے بریفنگ دی، آج کے وزیر داخلہ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، ان کے سخت ریمارکس پر جنرل پاشا نے کہا کہ میری کوئی غلطی ہے تو میں مستعفی ہوتا ہوں، ایوان کی کاروائی اس کے ریکارڈ میں موجود ہے ، کوئی ایک ا ٓواز بھی استعفے کے حق میں بلند نہیں ہوئی۔تواب جنرل پاشا اپنے عہدے سے رخصت ہو چکے، پیٹ پالنے کے لئے کہیں اور نوکری کر رہے ہیں اور جنرل کیانی بھی چند روزہ مہمان ہیں تو یکا یک ان کے خلاف کس کے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہے۔
اگر وزیر اعظم نے چین کے دورے کی مشقت نہ کی ہوتی تو شاید کوئی انگلی ان کی طرف اٹھتی کہ رازوں کی پوٹلی کھلنے کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے، مگر چین کے دورے میں جان مارنے والا وزیر اعظم تو چاہے گا کہ آج ملک میں ان کے دورے کو ہائی لائٹ کیا جائے، وہ کیسے چاہے گا کہ اس کی ایک ہفتے کی ساری محنت اکارت چلی جائے اور دو سال پرانے سانحے کی کوئی رپورٹ میڈیا اور سول سوسائٹی میں زبان زد عام ہو جائے، وزیر اعظم نے چھ دن یوں ہی ضائع نہیں کئے تھے۔مگر چین کا دورہ پس پردہ دھکیل دیا گیاا ور ہر چینل اور ہر اخبار کی ہیڈ لائن اور گفتگو کا موضوع ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ ہے، نکل گیا ہے سانپ اب لکیر پیٹا کر، جو ہونا تھا ، ہو چکا ، امریکہ نے اسامہ کو شہید کر دیا،پاکستان کے اقتدار اعلی کو فیتہ فیتہ کر دیا۔ ملک کے آج کے مسائل میں اندھیروں سے نجات کو ترجیح حاصل ہے، برباد شدہ معیشت کو سنبھالا دینا ہے، قوم کے اعتماد کو بحال کرناہے اور ایک نئے پاکستان کی تعمیر کے نعرے کو حقیقت کا روپ دینا ہے۔
مجھے ذرا بھر شک نہیں کہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا افشا وزیر اعظم کے دورہ چین کی اہمیت کم کرنے کی ایک گہری اور مجرمانہ سازش ہے۔
جنرل کیانی چند ماہ بعد اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔جنرل پاشا پہلے جا چکے۔ ایبٹ آباد سانحے کے یہ دو کردار تاریخ کے سپرد ہیں۔لیکن پاک فوج اور آئی ایس آئی یہیں پر ہے، پاکستان کو اپنی حفاظت کے لئے ایک فوج کی بہر حال ضرورت ہے، اپنی فوج نہیں چاہئے تو سنگاپور، جاپان، سعودیہ، دوبئی کی طرح بیرونی فوج کرائے پر لینا پڑے گی مگر فوج تو بہر حال ہو گی اور جو بھی فوج ہوگی وہ تیر وتفنگ سے لیس ہو گی،سیاستدان کرپشن، اقربا پروری، خاندانی حکمرانی اور بالا دستی کے لئے کوشاں ہو ںگے تو فوج اپنی طاقت دکھائے گی، خواہ وہ کسی ملک کی فوج ہو۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کی فوج نے کیا ہاتھ دکھایا تھا۔کیا بھول گئے۔
ہماری فوج ماضی کے جرنیلوں کی بد اعمالیوںکے باوجود دنیا کی ایک بہترین پیشہ ور فوج مانی جاتی ہے،یہ ایٹمی اسلحے سے لیس ہے اور اس طاقت کے حصول کے لئے پوری قوم نے قربانیاں دی ہیں۔کیا ہم باہم دست وگریباں ہو کر اپنے مشترکہ دشمنوں سے دفاع کے قابل رہیں گے، خدا نخواستہ، ہر گز نہیں۔
مجھے جنرل حمید گل کی زبان میں کہنا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن رپورٹ فوج کے خلاف ایک منظم کاروائی ہے۔
میں اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ جس کسی نے افشا کی یہ سازش کی ہے، اس نے اپنا ہی منہ کالا کیا ہے۔