• news

لال مسجد کے نائب خطیب اور ان کی والدہ کے حوالے سے درخواست‘ مشرف پر قتل کا مقدمہ بنتا ہے تو درج کیا جائے: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (و قائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولےس کو حکم دےا ہے کہ لال مسجد کے نائب خطےب اور ان کی والدہ کے قتل کے حوالے سے ہارون الرشےد کا بےان رےکارڈ کےا جائے، قابل دست اندازی جرم کی صورت مےں سابق صدر پروےز مشرف کے خلاف مقدمے کا انداراج کےا جائے۔ عدالت عالےہ کے جسٹس نورالحق اےن قرےشی پر مشتمل سنگل بنچ نے سابق نائب خطےب لال مسجد مولانا عبدالرشےد کے بےٹے ہارون الرشےد کی درخواست کی سماعت کی جس مےں مو¿قف اختیار کیا گیا کہ عدالتی کمشن کی رپورٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ لال مسجد آپریشن کا حکم پرویز مشرف نے دیا تھا۔ فوجی آپریشن کے ذریعے ان کے والد کو قتل کیا گیا لہٰذا عدالت پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔ درخواست گزار کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص کی درخواست پر کسی بھی نامزد ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے چاہے کوئی سابق صدر ہو یا آرمی چیف۔ پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف سابق صدر اور آرمی چیف رہے ہیں لہٰذا انہیں فوجداری مقدمات میں استثنٰی حاصل ہے۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد پولیس کو مدعی مقدمہ کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ اگر قابل دست اندازی جرم بنتا ہو تو پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ بی بی سی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ 2007ءمیں لال مسجد پر ہونے والے فوجی آپریشن سے متعلق سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف اگر کوئی ج±رم بنتا ہے تو ا±ن کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ اس کے رد عمل میں اسلام آباد پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ 2007ءمیں لال مسجد اور اس سے ملحقہ جامعہ حفصہ میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن میں ایک سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ آپریشن میں جاں بحق ہونے والے لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے بیٹے حافظ ہارون رشید نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف، جو ا±س وقت فوج کے سربراہ بھی تھے، نے اقتدار کے نشے میں کمانڈوز کو کارروائی کا حکم دیا جس میں سینکٹروں افراد جاں بحق ہوگئے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل طارق اسد نے درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لال مسجد آپریشن سے متعلق فیڈرل شریعت کورٹ کے جج کی سربراہی میں بنائے گئے کمیشن نے اس واقعہ کی ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد کی تھی۔ اس وقت سابق صدر کے قریبی ساتھیوں نے بھی کمیشن کو بیان دیتے ہوئے اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد کی تھی۔ 2007ءمیں لال مسجد آپریشن کے فوری بعد ہی ا±ن کے موکل نے آبپارہ پولیس سٹیشن میں ا±س وقت کے صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ جسٹس نور الحق قریشی نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس درخواست پر قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے تھی۔ ا±نہوں نے متعقلہ پولیس سٹیشن کے انچارج کو حکم دیا کہ وہ درخواست گ±زار کا موقف سنیں اور ج±رم ثابت ہونے کی صورت میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ دوسری جانب تھانہ آبپارہ پولیس کے انچارج قاسم نیازی کا کہناہے کہ اس معاملے میں عدالتی احکامات پر عمل درآمد ہوگا۔ ا±نہوں نے کہا کہ اس معاملے کو پولیس کی لیگل برانچ میں بھیجا جائے گا، قانونی رائے لینے کے بعد اس پر کارروائی کی جائے گی۔ یاد رہے پرویز مشرف کے خلاف تین مقدمات درج ہیں جن میں سے وہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور اعلی عدلیہ کے ججز کو حبس بےجا میں رکھنے کے مقدمات میں ضمانت پر ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر ب±گٹی کے قتل میں ا±ن کی ضمانت کی درخواست پر پندرہ جولائی کو بحث کی جائے گی۔ دریں اثناءشہداءفاﺅنڈیشن لال مسجد y' اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے علامہ عبدالرشید غازی شہید اور ان کی والدہ شہید کی شہادت کا مقدمہ پرویزمشرف کے خلاف درج کرنے کے حکم پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ شہدائے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ورثا چھ سال سے جدوجہد کررہے تھے کہ لال مسجد آپریشن کے ذمہ دار قانون کی گرفت میں آئیں۔ خوشی ہے کہ طویل جدوجہد کے بعد آج یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ علامہ عبدالرشید غازی کے بیٹے ہارون الرشید غازی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے پرویزمشرف کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ پرویزمشرف کے خلاف اندراج مقدمہ کا حکم شہدائے لال مسجد و جامعہ حفصہ کی فتح ہے۔ پرویزمشرف نے علامہ عبدالرشید غازی شہید اور ان کے ساتھ سینکڑوں طلبہ و طالبات کا قتل عام اس بنیاد پر کرایا تھا کہ وہ دہشت گرد ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے آج کے فیصلے نے ثابت کردیا ہے کہ دہشت گرد علامہ عبدالرشید غازی اور ان کے رفقاءنہیں تھے بلکہ اصل دہشت گرد پرویزمشرف ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب پرویزمشرف علامہ عبدالرشید غازی شہید سمیت سینکڑوں معصوم طلبہ و طالبات کے قتل کے جرم میں سزا پائیں گے۔ تھانہ آبپارہ نے ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کی تو یہ توہین عدالت ہوگی۔ شہداءفاﺅنڈیشن لال مسجد یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ پرویزمشرف لال مسجد آپریشن کے بلاشبہ مرکزی مجرم ضرور ہیں مگر وہ واحد مجرم نہیں ہے۔ پرویزمشرف کے خلاف مقدمے کا اندراج ابتدا ہے۔ سانحہ لال مسجد کے اصل ذمہ دار 22افراد ہیں۔ ہم تمام افراد کے خلاف مقدمات درج کرائیں گے۔ 

ای پیپر-دی نیشن