کیا الطاف بھائی کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے؟
توقیر صادق کو بالآخر پاکستان واپس آنا پڑا۔ اوگرا کی سربراہی کے حوالے سے تجربے او رنہ صرف خصوصی بلکہ عام تعلیم سے بھی کورے توقیر صادق پر 84ارب روپے کی لوٹ مار کا الزام ہے۔ اب تک بات 84ارب روپے کی ہو رہی تھی۔ حقائق سامنے آئیں گے تو ایک سو ارب سے زیادہ کی لوٹ مار ثابت ہو گی۔ ایک سو ارب روپے صرف ایک شخص ہی ہضم نہیں کر گیا۔ دس ہی دن میں سترہ امیدواروں کے انٹرویوز کے بعد اس کی سلیکشن کرنے والے اوگرا کی سربراہی کے آخری دن تک اس کی کمائی میں حصہ دار اور اسے وارنٹ گرفتاری اور نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے باوجود فرار کرنے والے سب گرفت میں آئیں گے۔ جس میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم ،رحمن ملک ،ملک ریاض ،سابق وزراءاعظم یوسف رضا گیلانی وراجہ پرویز اشرف اور باثوق ذرائع کے مطابق خود صدر مملکت کا دامن بھی نہ بچ سکے گا۔ گذشتہ انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی کا سندھ کے سوا پورے ملک سے صفایا ہو گیا۔ اب اس کی پوری قیادت کرپٹ قرار پائے گی اور توقع کی جانی چاہیے کہ لوٹ مار کرنے والا ہر کردار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔
توقیر صادق کا ہتھکڑیوں میں پاکستان چلے آنا معمول ہے نہ معمول کی کارروائی۔ پیپلزپارٹی ابھی مکمل طور پر اقتدار سے محروم نہیں ہوئی۔ ایوانِ صدر میں پیپلزپارٹی کے ماضی اور مستقبل کے ڈیفیکٹو چیئرمین موجود ہیں۔ حکومت میں رہنے والوں کے تعلقات امارات جیسے ممالک کے ساتھ راتوں رات ختم نہیں ہوتے اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے تو کاروبار اور جائیدادیں بھی ابوظہبی اور دبئی میں ہیں۔ عرب حکمران پاکستان جیسے ممالک کے حکمرانوں کو خاطر میں نہیں لاتے وہ اپنے مفادات کے زیادہ نگہبان ہیں۔ البتہ وہ ہر ملک کے حکمرانوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
توقیر صادق کو امارات میں پناہ تو سابق حکومتی پارٹی کے ایما پر دی گئی تھی۔ لیکن اس کی پاکستان کو حوالگی موجودہ حکمرانوں کے مطالبے پر ہوئی نہ عدالتوں کی ہدایت پر۔ اس میں عالمی قوتوں کا انٹرسٹ شامل ہے۔ گذشتہ دنوں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پاکستان آئے تھے ان کے دورے کو 2014ءمیں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے تناظر میں دیکھا گیا حالانکہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین کے کیس اور متوقع گرفتاری کے حوالے سے معاملات پر گفتگو کے لیے آئے تھے۔ اسی دورے کے دوران توقیر صادق کی پاکستان حوالگی کا معاہدہ ہوا بدلے میں عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں کو برطانیہ کے حوالے کرنا ہے۔ یہ دو قاتل اب تک ایجنسیوں کی حراست میں تھے یہ وہی لوگ ہیں جن کو عمران فاروق کے قتل کے بعد مُدّا غائب کرنے کے لیے مبینہ قاتلوں کو ملائیشیا سے سری لنکا بھجوا دیا گیا۔ جہاں ان کا فون ٹیپ ہوا۔ جب ان کی زبان کھلنے کا خدشہ محسوس ہوا تو انہیں پاکستان جانے کو کہا گیا۔ یہ دونوں نوجوان حکم کے غلام کراچی چلے آئے جہاں ایئرپورٹ سے ریسو کرکے انہیں ٹھکانے لگانے کا پروگرام تھا اس کی بھنک پڑنے پر وزیرداخلہ رحمن ملک نے رینجرز کو ساتھ لیا اور جہاز کے لینڈ کرتے ہی جہاز میں ان دونوں کو حراست میں لے لیا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک ان کے ذریعے متحدہ کو بلیک میل کرتے رہے۔ متحدہ جب بھی ناراض ہوئی پی پی حکومت نے رحمن ملک کے ذریعے اسے منا لیا۔
اب تک کی اطلاع کے مطابق متحدہ کے قائد کے گرد گھیرا تنک ہو چکا ہے۔ اسی سبب وہ میزبان ملک کے خلاف الزامات لگا رہے ہیں اور دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ یہ برطانوی پولیس کی ساکھ کا معاملہ بھی ہے۔ اس نے اپنی تاریخ میں ہر کیس حل کیا ہے۔ عمران فاروق کے قتل کو ادھورا چھوڑ کر اور معمہ قراردے کر وہ پوری دنیا میں بدنامی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں۔ متحدہ کا جن پاکستان میں اور اس کی جان لندن میں ہے اس پر ہاتھ پڑا تو کراچی ایک بار پھر طوفانوں اور بگولوں کی زد میں ہوگا لیکن جلد ہی متحدہ اپنے قائد کے بغیر بکھر کر رہ جائے گی۔ نئی حکومت کو بھی اسی دن کا انتظار ہے۔ کراچی میں خونریزی کا یہ آخری فیز ہو گا اور پہلے کے تمام فیزوں سے خدانخواستہ بڑھ کر لیکن اس کے بعد کراچی کی روشنیاں اور رونقیں ہمیشہ کے لیے لوٹ آئیں گی۔گذشتہ روز مشہور برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کی سرگرمیوں کے متعلق ایک ڈاکومنٹری فلم چلائی ہے۔ برٹش اور یورپین میڈیا کا اس طرح جارحانہ انداز پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا ۔ دراصل برطانیہ نے الطاف حسین کو اپنے مقاصد کے لیے ”ٹِشو پیپر “ کی طرح استعمال کرکے پھینکنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بی بی سی کی رپورٹ آنے کے بعد امریکہ ،کینیڈا اور یورپ سمیت متعدد ممالک میں متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے زیرانتظام چلنے والے فلاحی و خیراتی اداروں کا کریک ڈاﺅن شروع ہو چکا ہے۔اور موسم کا حال بدلتے دیکھ کر پاکستان میڈیا کے منہ زبان اور ہاتھ میں قلم واپس آ گئی ہے۔کل تک جو پاکستانی میڈیا نامعلوم، انتہائی اہم شخصیت جیسے القاب استعمال کرتا تھا آج اسی میڈیا کو پَر لگ گئے ہیں اور ہر دانشور، صحافی، اینکرایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنی قابلیت کو ثابت کرنے کے درپے ہیں۔کیا ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے ۔ جس ٹائی ٹینک کو وہ ڈبونا چاہ رہا تھاوہ تو انشاءاللہ ہزاروں لاکھوں سال زندہ رہے گا مگر اسی کی اپنی کشتی اس طوفان سے نکل نہ پائے گی۔