عرب ممالک میں ماہ رمضان کے شب و روز
ماہ رمضان کا چاند نظر آنے سے قبل ہی عرب ممالک میں استقبال رمضان کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ سرکاری سطح پر ماہ رمضان کے احترام میں لوگوں کو ریلیف دینے کے خاطر اوقات کارمیں دوگھنٹے کی کمی کردی جاتی ہے۔ بازاروں میں اشیائے خوردونوش وافر مقدا رمیں مہیا کردی جاتی ہیں اور قیمتوں پر کنٹرول رکھا جاتا ہے۔ اکثرشاپنگ مال گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مصنوعی کمی کردیتے ہیں جومہینہ بھر جاری رہتی ہے۔ سرکاری سطح پر مساجد میں اور شہری آبادی والے علاقوںمیں رمضان سٹینٹ لگا دیے جاتے ہیں جہاں لوگ انواع و اقسام کے کھانوں سے افطاری کرتے ہیں۔ سرکاری سطح پر ماہ رمضان کی آمد کا اعلان چاند نظر آنے پر کیا جاتا ہے جبکہ روایتی اندازمیں توپ چلا کر کیا جاتا ہے۔ دُبئی اورشارجہ میں رمضان شروع ہونے کا اعلان کرنے کے لئے جب توپ کا گولہ فائر کیا جاتا ہے تو ہزاروں لوگ منظر دیکھتے ہیں۔ نجی سطح پرماہ رمضان کے دوران خصوصی افطار کیمپ لگائے جاتے ہیں جبکہ مقامی عرب عزواقارب اور دوستوں کے گھروں میں افطاری کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ہوٹلوں، صہراﺅں، سمندری جہازوں، اور تفریحی مقامات پر افطار پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں جس میں غیر ملکی غیر مسلم لوگ بھی شرکت کرتے ہیں۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے کیمپوں میں ملازمین کے لئے افطار و سحر کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اس موقع پر جیل میں قیدیوں اور ہسپتالوں میں مریضوں کو بھی یاد رکھا جا تا ہے اور انہیں افطاری وہاں مہیا کی جاتی ہے۔ رمضان شروع ہوتے ہی یہاں ایک دوسرے کو مبارکباد یں دی جاتی ہیں”رمضان کریم“اور ”رمضان مبارک“ کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ مساجد کو خصوصی طور پر سجایا جاتا ہے سرکاری نجی عمارات اور شاہراہوں پر رنگارنگ قمقمے لگائے جاتے ہیں۔ بازاروں اور شاپنگ مالز میں رنگارنگ روشنیاں خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ مساجد میں نماز تراویح کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ۔ تراویح ادا کرنے کے بعد عرب لوگ بقیہ سار ی رات تقریباً جاگ کررہی گزارتے ہیں۔ رات کو جاگنے کے لئے گھروں کے باہر خوبصورت خیمے سجائے جاتے ہیں۔ جس میں مقامی عرب مل جل کر بیٹھتے اور گپ شپ لگاتے ہیں جبکہ شہر سے دور صحرا میں بھی کیمپ لگائے جاتے ہیں جہاں ساری رات مقامی عربوںکی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ماہ رمضان کے دوران ساری رات بازار، مارکیٹیں اور شاپنگ مال کھلے رہتے ہیں۔ وہاں لوگ شاپنگ کرتے ہیں۔ عربوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی بھی رات کو جاگنے اور دن کو سونے کی عادت سی بن گئی ہے۔ساری رات جاگنے کے بعد سحری کرنے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد لوگ سو جاتے ہیں اور بازار بھی بند ہوجاتے ہیں جبکہ عصر کے بعد شہروں اوربازاروں کی رونقیں بحال ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کی طرح امارات میں افطاری کا سامان کھلے عام ملتا ہے۔ جس میں خاص طور پر سموسے ، پکوڑے اور جلیبیاں سامنے بنائی جاتی ہیں۔ کڑاھی میں سموسے، پکوڑے اور جلیبیاں بنانے کا منظر غیر ملکی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور گرما گرم اشیاءلے کرکھاتے ہیں ۔ دُبئی ایک معروف شہر ہے جہاں رات کے کسی بھی وقت ٹریفک دیکھی جاسکتی ہے لیکن افطاری کے وقت سڑکوں میں ٹریفک کارش بالکل ختم ہوجاتا ہے اور نمازمغرب کے بعد دوبارہ بحال ہو جاتا ہے۔ افطاری کے اوقات مختلف النسل لوگوں کا رش دیکھنے کو ملتا ہے جوافطار کیمپوں اور مساجد میںافطاری کے لئے آتے ہیں ماہ رمضان میں مساجد میں بھی رش ہوجاتا ہے۔ افطار کے بعد نماز مغرب کے دوران مساجد تو نمازیوں سے بھر ی ہوتی ہیںجبکہ باجماعت نماز لوگ سڑک پر بھی ادا کررہے ہوتے ہیں۔ دن کو گرمی کے باعث فیملیزاور بچے باہر نہیں نکل پاتے لہذا رات کے وقت پارکوں، بازاروں شاپنگ مالز اور مارکیٹیں میں لوگوں کا جم غفیر دیکھنے کو ملتا ہے۔ رات کے وقت چہل پہل دن کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ لوڈشیڈنگ کا نہ ہونا بھی ہے۔ یہ ممالک اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان میں بجلی کا نظام بہت اچھا ہے لہذا بجلی بند ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بجلی کا ہر وقت موجود رہنا بھی رونقیں بحال رکھنے کی وجہ ہے۔ ماہ رمضان کے دوران عرب ممالک میں جشن کا سماں ہوتا ہے اور عام دونوں کی نسبت بہت زیادہ رونق ہوتی ہے جبکہ خاص طور پر دوبئی میں جس طرح شہر کو خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ماہ رمضان کے دوران رونقیں اور خصوصی انتظامات دیکھ کر واقعی ایسا لگتا ہے کہ یہ مہینہ عام مہینوں کی نسبت انفرادیت رکھتا ہے۔