• news

دنیا بھر میں کشمیریوں کے مظاہرے‘ مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال‘ بھارتی فوج کا وحشیانہ تشدد‘ بیسیوں زخمی‘ علی گیلانی‘ میر واعظ اور شبیر شاہ نظربند

 اسلام آباد+سرینگر( نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں+ نیٹ نیوز) پاکستان، آزاد اور مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیریوں نے یوم شہدا اس عزم کے ساتھ منایا کہ وہ حق خود ارادیت کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر مظاہرے، جلسے جلوس، ریلیاں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا گیا۔82سال قبل 13جولائی کے دن مقبوضہ جموں و کشمیر میں سنٹرل جیل سری نگر کے احاطے میں بیس سے زائد کشمیریوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے جس جدوجہد آزادی کا آغاز کیا تھا اسی عمل کو جاری رکھنے کیلئے کشمیری ہر سال تجدید عہد کے طورپر 13جولائی کو یوم شہدائے کشمیر مناتے ہیں۔ لاہور سمیت ملک بھر میں یوم شہدائے کشمیر منایا گیا۔ سیمیناروں میں کشمیری شہداءکی قربانیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔کل جماعتی حریت کانفرنس اسلام آباد کے دفتر میں یوم شہداءکشمیر کے حوالے سے سیمینار مےں کشمےری رہنماﺅں نے اس عزم کا اظہار کےا کہ 13 جولائی کے شہدا کی روشن کی ہوئی شمع حریت کو روشن رکھنے اور حصول آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔ ایک قرار داد میں کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور غیرانسانی کالے قوانین کی پرزور مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ سیمینار میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے قائدین کے علاوہ جماعت اسلامی آزاد کشمےر کے امےرعبدالرشید ترابی ، جے کے پی پی کے صدر سردار خالد ابراہیم ، بخت زمین ، غلام نبی نوشہری ، ارشاد محمود ، صغیر چغتائی ، معین باٹلے ، نورالباری ، شاہ غلام قادر اور دیگر قائدین نے بھی خطاب کےا ۔ مقررےں نے مقبوضہ کشمیر میں گھروں میں اور جیلوں میں محبوس قیادت کے ساتھ مکمل اظہاریکجہتی کرتے ہوئے اس بات کا یقین دلایا کہ آزاد کشمیر کی پوری قیادت اور عوام ان کے ساتھ ہیں ۔ بھارت کے قابض حکمرانوں کو یہ واضح پیغام دیاگیا کہ وہ ہوش کی ناخن لے اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی کو ترک کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کے قرار دادوں کے مطابق اپنا بنیادی حق دے ۔ اےک اور قرارداد مےں مطالبہ کےا گےا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں نافذ تمام بھارتی کالے قوانین ختم کئے جائیں ۔ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر اس خطہ میں پائیدار امن ممکن نہیں، مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات میں مضمر ہے۔ کشمیری عوام اپنے حق حق خودارادیت کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یوم شہدا کشمیر کے موقع پر اقوا م متحدہ کے مبصر دفاتر کو احتجاجی یادداشتیں پیش کی گئیں۔ دوسری جانب ےوم شہدائے کشمےر کے موقع پر مقبوضہ کشمےر مےں عام ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں سے روز مرہ زندگی معطل ہو کر رہ گئی۔ مظاہرین پر بھارتی فورسز کے وحشیانہ تشدد سے بیسیوں افراد زخمی ہوگئے۔ حرےت قائدےن علی گےلانی، مےر واعظ عمرفاروق ، شبےر احمد شاہ اور دوسرے رہنماﺅں کو نظر بند کر دےاگیا۔ سری نگر مےں اس وقت کشیدگی پھیل گئی جب مزار شہدا کی طرف مارچ کررہے نوجوانوں کو پولیس نے روک لیا جس کے بعد پائیں شہر کے بیشتر علاقوں میں طرفین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پر تشدد جھڑپوں اور شلنگ کے بعد پائیں شہر میں پولیس اور فورسز کی بھاری تعداد تعینات کردی گئی۔ نوہٹہ میں نوجوانوں نے احتجاجی جلوس نکالا اور آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مزار شہدا نقشبند صاحب کی جانب پیش قدمی کی ۔نوہٹہ چوک سے آگے گزرنے پر پولیس اور فورسز کے آگے بڑھنے سے روکنے پر نوجوان مشتعل ہوگئے اور پتھراﺅ کیا، جس پر پولیس اور سی آر پی ایف نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے کئی مقامات پر آنسو گیس کے گولے پھینکے اور لاٹھی چارج کیا۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ 1931ءکے شہداءکا مشن ابھی پورا نہیں ہوا کیونکہ ان کی عظیم قربانی کے طفیل اگر چہ شخصی راج کا خاتمہ ہوامگر بعد میں سیاست کاری کے نتیجے میں کشمیریوں کے گلے میںبھارت کی غلامی کا طوق ڈال دیا گیا جو ابھی تک موجود ہے۔ یوم شہدائے کشمیر کے موقع پر مظفر آباد کے علاوہ میر پور، بھمبر، کوٹلی، راولا کوٹ، پلندری، باغ اور کہوٹہ میں بھی بڑی بڑی ریلیاںنکالی گئیں۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ سابق صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر سردار محمد عبدالقیوم خان اور سردار عتیق احمد خان نے کہا ہے کہ 13جولائی 1932ءہویا 6نومبر 1947ءیہ دن تحریک آزادی کشمیر میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب تک مسلم کانفرنس کا ایک بھی کارکن زندہ ہے شمع آزادی کو بھجنے دیں گے اور نہ ہی تحریک آزادی کشمیر مانند پڑ سکتی ہے۔مسئلہ کشمیر کو بائی پاس کرکے بھارت کے ساتھ دوستی کانعرہ شہداءکے خون سے غداری ہے۔ کشمیر کونسل ای یو نے یوم شہدائے کشمیر کی مناسبت سے بیلجئم کے دارالحکومت برسلز میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں شہدائے سرینگر کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود ان شہداءکا مشن جاری رہے گا اور اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔ بی بی سی کے مطابق 1846ءمیں تاج برطانیہ نے کشمیر میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو ’بادشاہ‘ بنا دیا۔ اس طرح وادی میں برطانوی اقتدار کے تحت ڈوگرہ بادشاہت کا صد سالہ دور شروع ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہی ڈوگرہ شاہی کی زیادتیوں، استحصال اور مسلم کش پالیسی کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز ہوا۔ 13 جولائی 1931ءکو سرینگر کی سینٹرل جیل کے قریب ڈوگرہ فورسز نے ایک پٹھان مزاحمت کار عبدالقدیر کی سرعام سماعت کے دوران درجنوں مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اس واقعہ کے خلاف کشمیر کے شمال و جنوب میں مظاہرے ہوئے مظاہرین پر فائرنگ کی وجہ سے متعدد کشمیری مارے گئے۔ ان میں سے اکثر کو سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع ’مزار شہدا‘ میں دفن کیا گیا۔ اس تحریک میں موجودہ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کے دادا شیخ محمد عبداللہ پیش پیش تھے۔ انہوں نے مسلم کانفرنس قائم کی جو چند سال بعد انڈین کانگریس کے زیراثر نیشنل کانفرنس بن گئی۔ محمد عبداللہ نے 1946ءمیں ڈوگرہ شاہی کے خلاف ’ کشمیر چھوڑ دو‘تحریک شروع کی۔ اس سلسلے میں سرینگر کے ’مزار شہدا‘ میں تقریب ہوئی۔ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے خاموشی سے فاتحہ پڑھی اور چلے گئے۔ یہ قابل ذکر بات ہے کہ 83 سال قبل 13 جولائی کے روز مارے گئے کشمیریوں کو حکومت اور علیحدگی پسند دونوں ہی شہید تصور کرتے ہیں۔ حکومت میں شامل رہنما خود سخت سکیورٹی حصار میں فاتحہ خوانی میں شریک ہوتے ہیں۔ مگر حریت پسندوں کو جیلوں یا گھروں میں نظر بند رکھا جاتا ہے۔ مزار شہدا کے ارد گرد حسب روایت ناکہ بندی تھی۔ حزب اختلاف کے رہنما مفتی محمد سعید نے بھی ’مزار شہدا‘ پر حاضری دی اور کہا کشمیر کو قیدخانے میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ماحول بدلنا ہے تو لوگوں کو ہمیں ووٹ دینا ہوگا۔‘ سابق عسکری کمانڈر جاوید احمد میر اور درجنوں دوسرے کارکنوں کو لال چوک میں ا±س وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ ’مزار شہدا‘ کی طرف جا رہے تھے۔ جاوید میر نے تھانے سے فون کر کے بتایا: ’حکومت نے منافقانہ پالیسی روا رکھی ہے۔ خود تو شہیدوں کی قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں اور فوٹو بنواتے ہیں لیکن یہی کام جب ہم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں گرفتار کیا جاتا ہے۔‘ انٹرنیٹ پر بھی نوجوانوں نے’یوم شہدا ‘کے موقع پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ یوم شہدا کے موقعہ پر سرکاری تعطیل رہی حریت پسندوں کی کال پر ہڑتال کی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن