بیمار ہوئے جس کے سبب
ارشاد نبوی ہے ”مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا“ مگر نجانے ہم کیسے مسلمان ہیں کہ جس نبی کی امت ہیں اس کے ارشادات پر عمل کرنے کی بجائے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لیتے ہیں۔ خبر ہے کہ حکومت پاکستان بھارت سے دو سے ڈھائی ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے کیلئے مذاکرات کر رہی ہے اور جلد اس سلسلہ میں معاہدہ طے پا جائے گا۔بھارت ہمارا ہمسایہ ہے اور یہ ہماری مجبوری ہے کہ ہم اپنا ہمسایہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ بھارت کو آج بھی یہ غصہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال اس پر حکومت کی ہے۔ انگریز کی غلامی سے نجات ملتے وقت بھارت نے مسلمانوں کے ساتھ جی بھر کر غصہ نکالااور جو سلوک کیا اس کے زخم آج بھی تازہ ہیں اوراسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں ، بچے شہید ہوئے، لاکھوں خواتین نے اپنی عصمتیں لٹائی،بے شمارنے اپنی عصمتیں بچانے کے لئے کنوﺅں میں کود کر جانیں دیں۔ بھارت نے قیام پاکستان کے بعد سے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ بین الاقوامی سرحد کو بھی ایک ”لکیر“ قرار دیتا ہے حالانکہ یہ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے بننے والی لکیر ہے۔ جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور ہماری شہ رگ قبضے میں لے کر ہمارے دریاﺅں پر قبضہ کر لیا۔ آج راوی، بیاس، ستلج خشک ہو چکے ہیں۔ چناب کے پانیوں پر بھارت قبضہ مستحکم کر رہا ہے اور ڈیم پر ڈیم بنا رہا ہے۔ دریائے نیلم پر بھی ڈیم بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور سندھ کا پانی چوری کرنے کے لئے سرنگ مکمل کر رہا ہے۔
ان حالات میں بھارت سے دوستی کا ہاتھ بڑھانا کیسے حکمرانوںکو زیب دیتا ہے۔ بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے سیاچن اور سرکریک پراپنے قبضوں کو جائز سمجھتا ہے۔ پانی چرا رہا ہے اور ہمیں ریگستان بنانا چاہتا ہے۔ ان حالات میں بھارت سے دوستی آخر کیسے ممکن ہے ۔بھارت نے مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی میں کردار ادا کیا ۔مکتی باہنی کے روپ میں اپنے گوریلے مشرقی پاکستان میں داخل کئے اور پاکستان کے دو ٹکڑے کروا دیئے۔ مگر ہم پھر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ دوستی بس چلا رہے ہیں۔ بھارت سے تجارت بڑھانے کے لئے اسے ”فیورٹ نیشن“ قرار دینا چاہتے ہیں۔ اس وقت بھارت سے تجارت کا تمام توازن بھارت کے حق میں ہے۔ وہ ہمیں سبزیاں، پھل، کپاس بھیج رہا ہے اور ہم سے سیمنٹ خرید کر اپنے ملک کی ترقی مزید تیز کر رہا ہے مگر ہم بھارت سے دوستی کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ باربار بھارت سے ڈسے جاتے ہیں مگر پھر بھی سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی خواہش ہے کہ بھارت سے بجلی خریدی جائے۔ بھارت ہمیں خوشی سے بجلی فروخت کرنے پر تیار ہے۔ اس طرح اس کا دریاﺅں کے پانیوں پر ”حق“ مزید مضبوط ہو گا۔ وہ ہمارے ہی دریاﺅں سے سستی بجلی بنا کر ہمیں مہنگے داموں فروخت کرے گا۔ یہی بنیا ذہنیت ہے۔ چین نے اپنے ایک ہی دریا پر 3 ڈیم بنا کر 22-500 میگاواٹ بجلی حاصل کر لی ہے ہم ہیں کہ ہم سے دریائے سندھ پر تربیلا کے بعد کالا باغ ڈیم نہیں بن سکا اب بھاشا ڈیم بھی زبانی کلامی حد تک نظر آتا ہے۔ بھارت سے بجلی خریدنے سے پہلے ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم بھارت سے کتنی بار ڈسے جائیں گے نبی کریم نے فرمایا تھا کہ ”مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا“ ہم کیسے مسلمان ہیں کہ بھارت جیسے سانپ کے سامنے خود کو پیش کر دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں 23 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ ہماری ضرورت 18ہزار میگاواٹ ہے۔ ہمارے ملک میں 6 ہزار میگاواٹ کے ایسے تھرمل پاور پلانٹ موجود ہیں جو فرنس آئل سے چلائے جاتے ہیں ان پاور پلانٹ میں فرنس آئل جلانے سے بھاپ بنتی تھی جو ٹربائن چلا کر بجلی بناتی تھی۔ ٹربائن بوائلر سسٹم سے بجلی پیدا کرنیوالے ان پاور پلانٹوں میں بدقسمتی سے ایسا ناقص فرنس آئل استعمال کیا جاتا رہا جس میں گندھک اور سلفر کی مقدار مقررہ حد سے زیادہ تھی۔ جس کے نتیجے میں ان بوائلر کی ”ٹیوبس“ میں سوراخ ہو گئے اور بھاپ لیک ہونے سے بجلی بنانا ممکن نہیں رہا۔ ان پاور پلانٹوں کے بوائلر بدلنا ضروری ہیں۔ نئے بوائلر آج آرڈر دیا جائے توڈیڑھ سے دو سال کے عرصہ میں مل سکیں گے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ نئے بوائلر ایسے بنوائے جائیں جن میں کوئلہ جلا کر بھاپ پیدا کی جا سکے۔ یہ کوئلہ تھر میں دستیاب ہے۔ معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ ہم یہ پاور پلانٹس چالو کر لیں تو دو سال میں بجلی کا بحران دور ہو سکے گا مگر ہم ہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے کی بجائے بھارت سے بجلی خریدنا چاہتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر تاجکستان سے بجلی خریدنا چاہ رہے ہیںجو جنگ سے تباہ حال افغانستان سے گزر کر پہنچے گی۔ نجانے کب ہم سبق سیکھیں گے۔ ہمارے گھر میں 6 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ صرف 18ماہ سے 24 ماہ میں اسے حاصل کیا جا سکتا ہے مگر ہم بھارت سے دوستی میں مرے جا رہے ہیں ہم پر تو میر تقی میر کایہ شعر یقینا پورا اترتا ہے
میربھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں