زمین رو رہی ہے
زمین رورہی ہے ،اس کے آنسو کسی کو دکھائی نہیں دیتے اس کی سسکیاں کسی کو سنائی نہیں دیتیں اس کے آنسو خوداس کا دامن بھگو رہے ہیں کبھی فلسطین، تو کبھی کشمیر،کبھی شام،تو کبھی مصر،کبھی وزیرستان، تو کبھی بلوچستان ،کبھی سندھ، تو کبھی پنجاب،اس پر لاشوں کے انبار گرائے جاتے ہیں اس کی چاردیواری میں درندگی کی فصل اُگائی جاتی ہے کبھی ماں تو کبھی باپ اپنی ہی اولاد کو قتل کر کے اسکی تہوں میں چھپا دیتے ہیںتو کبھی اولاد نفس کی غلام بن کر والدین کے خون سے ہاتھ رنگ لیتی ہے،زمین پر پھول نہیں برستے بلکہ انگارے دہکتے ہیںپکے ہوئے پھل نہیں گرتے بلکہ اشجار گولیوں کی باڑ گراتے ہیں اور زمین آنسو بہاتی ہےظلمت پر،درندگی پر،انسانیت کی تذلیل پر،مُردوں کی بے حرمتی پر حوا کی بیٹی کے لٹ جانے پر،فحاشی اور بے راہ وروی پر،حرام کاری پر ،سود پر،طاقتور کی اجاراداری پر،حکمرانوں کی بے حسی پر،زندگی کے کفن اوڑھنے پر،موت کے نوحوں پر،ہاں زمین خون کے آنسو روتی ہے کیا اسکے نصیب میں صرف رونا ہے کہ وہ ازل سے رو رہی ہے کیا ابد تک روتی رہے گی کیا امتِ مسلمہ سوتی رہے گی ؟کون ہے جو اس زمین کے آنسو پونچھے گا؟ اسکے سینے پر گولیوں کے بجائے پھولوں اور پھلوں کی فصل اُگائے گا اسکے آنسوو¿ں کو اپنے دامن میں سمیٹ کراس پر خوش رنگ تتلیوں اور چمکتے، روشنی بکھیرتے جگنوو¿ں کو اڑائے گا۔ (طاہرہ جبین تارا گڑھی شاہو لاہور)