حکام کی نااہلی ‘ سرکاری اداروں کے بجلی ‘ گیس واجبات ساڑھے 13 ارب روپے تک جا پہنچے
لاہور(ندیم بسرا) بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہوں اور سوئی ناردرن کمپنی کے اعلیٰ حکام کی عدم توجہ اور یکساں پالیسی اختیار نہ کرنے کے باعث وفاق اور صوبائی اداروں کے ذمے واجب الادا بل ساڑھے 13 ارب روپے کے قریب جا پہنچے ہیں۔ گزشتہ 8 برسوں سے محکموں کی طرف سے ناقص ریکوری کی صورت حال کے باعث واجب الادا بلوں میں ہر برس 1 سے پونے 2 ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، گوجرانوالہ، ملتان، حیدر آباد، پشاور اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کی ریکوری 2004 سے 2012ءکے جون تک کارکردگی مایوس کن ہی رہی۔ تمام تقسیم کار کمپنیوں کی ریکوری میں صرف فیصل آباد، گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی میں 2 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کی جون 2013ءکی سالانہ ریکوری 80 فیصد سے بھی کم رہی۔ لائن لاسز میں بھی اضافہ ہوا، دیگر تقسیم کار کمپنیوں پشاور، حیدر آباد، ملتان اور اسلام آباد کی ریکوری بھی گزشتہ برس 61 فیصد سے بڑھ نہیں سکی۔ تقسیم کار کمپنیوں کے افسروں کی دوہری پالیسی کی وجہ سے اس وقت ریکوری کی مایوس کن صورتحال ہے۔ دوسری طرف سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کے نادہندہ صارفین کے واجبات میں ہر برس 30 کروڑ روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ سوئی ناردرن کمپنی میں بڑھتی ہوئی گیس چوری کی وجہ سے ریکوری کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ لاہور، ساہیوال، ملتان، اسلام آباد، فیصل آباد، پشاور ریجن کی ریکوری 2004ءسے 2012ءکے جون تک 69 فیصد رہی۔ جبکہ گزشتہ برس میں سوئی ناردرن کمپنی کی ریکوری 71 فیصد سے بڑھ نہیں سکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بجلی اور گیس کمپنی کے وفاق کے 59 ادارے اور صوبائی حکومتوں کے 102 ادارے ڈیفالٹرز ہیں، اس وقت ریلوے، پی آئی اے، حساس اداروں، صحت اور دیگر اداروں نے ساڑھے 5 ارب روپے ادا کرنے ہیں جبکہ صوبائی حکومتوں جیسے لاہور میں واسا، ضلعی حکومتیں، تعلیمی ادارے، پولیس، محکمہ صحت، ہسپتالوں، جیل خانہ جات، پولیس ٹریننگ سنٹرز، آثار قدیمہ، ماتحت عدلیہ اور میونسپل کے اداروں نے 7 ارب روپے سے زائد ادا کرنے ہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبر پی کے، بلوچستان کے صوبائی اداروں کے ڈیفالٹرز گزشتہ 8 برس سے چلے آرہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 13 ارب روپے کی رقم وہ ہے جو بجلی اور گیس کی مد میں محکموں نے ادا کرنے ہیں اس کے علاوہ محتسب اور دیگر عدالتوں میں اس سے بڑی رقم متنازعہ ہے جس کے فیصلے نہیں ہوسکے اور عرصہ دراز سے ادارے حکم امتناعی لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ محکموں کے سربراہان بجلی کا بل ادا کرنے کی بجائے غیر ضروری ترقیاتی کاموں پر خرچ کر ڈالتے ہیں۔