شام میں جنگجو نہیں بھیجے، تحریک طالبان: دفتر خارجہ، وزارت داخلہ کی بھی تردید
پشاور (اے ایف پی+ بی بی سی+ آن لائن) کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے شام میں اپنے جنگجو بھیجنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے ہماری تمام تر توجہ پاکستان اور افغانستان میں جاری جنگ پر مرکوز ہے اور ایسے حالات میں کسی اور محاذ پر جنگجوﺅں کو بھیجا نہیں جاسکتا۔ تحریک طالبان پاکستان کی شوری میں شامل سینئر کمانڈر نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا ان کا مقصد خطے میں موجود امریکہ اور نیٹو افواج کو نشانہ بنانا ہے، اس سلسلے میں وہ پاکستانی فوج کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں، طالبان شام میں بشار الاسد کے خلاف جاری جنگ کی حمایت کرتے ہیں لیکن اب تک جنگجوﺅں کو شام بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں طالبان کے کمانڈر نے اس حوالے سے کہا ان کے علاقے سے کچھ جنگجو شام پہنچے ہیں لیکن انہیں طالبان نے نہیں بھیجا بلکہ وہ خود آزادانہ طور پر اپنی مرضی سے گئے ہیں اور وہاں جانے والے پاکستانی نہیں بلکہ عرب، ازبک اور چیچن ہیں۔ پاکستان نے ذرائع ابلاغ میں پاکستانی طالبان کے شام جانے کی اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے ملک سے کوئی شدت پسند ملک سے باہر نہیں گیا۔دفترِ خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا نہ پاکستان ایسا چاہے گا کہ شدت پسند عناصر یہاں سے دیگر ملکوں کو سفر کریں اور وہاں جا کر کارروائیاں کریں یا وہاں جاری خانہ جنگی میں حصہ لیں نہ ہی پاکستانی حکام ا±ن کو ایسا کرنے دیں گے۔ دوسری جانب وزارت داخلہ کے ترجمان عمر حمید نے بھی ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا آئی جی بلوچستان پولیس سمیت خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام سے اس سلسلے میں معلوم کیا گیا ہے لیکن تمام اداروں کی جانب سے طالبان کے شام جانے کی اطلاعات کی تصدیق نہیں کی گئی۔ ا±ن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے باہر جانے کے تمام راستوں پر متعلقہ عملہ چوکس ہے اور عسکریت پسندوں کے حوالے سے ملک کی داخلہ پالیسی واضح ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دمشق میں پاکستان کے سفیر وحید احمد نے کہا شامی حکومت کی طرف سے پاکستانی سفارتخانے کو ایسی کوئی شکایت نہیں ملی ہے وہاں پاکستانی عسکریت پسندوں نے کوئی اڈا قائم کیا ہے یا ان کے شامی باغیوں سے کسی طرح کے رابطے ہیں۔نمائندہ خصوصی کے مطابق اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا ہے شام میں پاکستانی طالبان کی موجودگی کے بارے میں علم نہیں۔ ترجمان نے کہا یہ اقوام متحدہ کیلئے بہت مشکل ہے کہ معلوم کیا جا سکے کہ جنگ میں کون شریک ہیں کیونکہ ہمارے پاس مانیٹرنگ کا نظام نہیں۔