پولیس اقوام متحدہ کے نمائندے کو بلا کر تفتیش کرے ‘ یقین نہیں آتا ہم آزاد ہوئے تھے: عدالت عظمیٰ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + آئی این پی+آن لائن) سپریم کورٹ میں تاسف علی دانش لاپتہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت میں م¶قف اختیار کیا ہے کہ فوج کے افسران اور اہلکار قانون سے بالاتر نہیں مگر ان کے خلاف صرف آرمی ایکٹ کے تحت ہی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایسا کوئی قانون موجود نہیں جس کے تحت ایک تھانےدار جا کر حاضر سروس میجر کو ہتھکڑیاں پہنا دے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ عدالت آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دے گی، دیکھنا یہ ہے کہ فوج پر ایسے الزامات کیوں لگ رہے ہیں اگر کوئی مجرم ہے تو قانون کے مطابق اسے گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمات چلائیں۔ منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل ابراہیم ستی نے پیش ہو کر کہا کہ دانش کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے حاضر سروس میجر کے خلاف ایف آئی آر درج ہو ئی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کوئی پہلا کیس نہیں دیگر مختلف کیسوں میں بھی فوج افسران کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، ابراہیم ستی نے کہا کہ ایم آئی کے اس حوالے سے تحفظات ہیں، ہمارا م¶قف ہے کہ آرمی افسر قانون سے بالاتر نہیں لیکن ان کے خلاف صرف آرمی ایکٹ کے تحت ہی کارروائی کی جا سکتی ہے اور ایسا کوئی قانون نہیں کہ ایک تھانیدار ایک میجر کے گھر جائے اور اس کو ہتھکڑیاں لگا دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس صورتحال سے بچنے کے لئے مغوی کو پیش کر دیا جائے تو سارا معاملہ ہی ختم ہو جائے گا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ تاسف علی ایم آئی کے قبضہ میں نہیں اور نہ ہی میجر حیدر کو اس کے بارے میں کچھ معلوم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسے تلاش کر کے لے آئیں اگر آپ تعاون نہیں کرنا چاہتے تو آرمی ایکٹ کے حوالے سے بحث کریں ہم آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ فوج پر ایسے الزامات کیوں لگ رہے ہیں، اگر کوئی مجرم ہے تو قانون کے مطابق اسے گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمات چلائیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کے حوالے سے یوٹرن لے لیا ہے اور قانون کا مطالعہ کئے بغیر ہی استثنیٰ سے متعلق بیان دیا ہے جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ کسی نے کوئی یوٹرن نہیں لیا ہے۔ چیف جسٹس نے فاضل وکیل کو کہا کہ اونچا بولنے سے شاید آپ اپنے م¶کل کو تو مطمئن کر لیں لیکن عدالت پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ بعدازاں عدالت نے سماعت اگلے ہفتہ تک کے لئے ملتوی کر دی۔ دریں اثناءسپریم کورٹ میں مدثر اقبال لاپتہ کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے تفتیشی آفیسر / ایس پی بخاری کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے مرتکب یو این او کے کوآرڈینیٹر کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی ہے جس میں کوآرڈینیٹر نے اپنے رویہ پر معذرت کرتے ہوئے تفتیش میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو یو این او کے کوآرڈینیٹر کی جانب سے معذرت اور تفتیش میں تعاون دینے کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا یو این او آفس سے آپ کو کوئی سراغ مل گیا ہے تو انہوں نے انکار کر دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ انہوں نے ہمارے آفیسر کے ساتھ بدسلوکی کیوں کی۔ اگر نیویارک یا لندن میں ایسا واقعہ ہو تو شاید ہم بے بس ہوں لیکن یہ تو ہمارا ملک ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس آفیسر پاکستان کا شہری ہے اسے قوم نے ذمہ داری کے ساتھ وردی عطا کی ہے جس کی عزت ہونی چاہئے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ یہی افسر ایس پی کے دفتر جائے گا اور ظہیر کیانی لاپتہ کیس کے حوالے سے یو این او کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے بارے میں سوالات اٹھائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پبلک سرونٹ ہے اور کوئی بھی اسے اس کے قانونی کام سے نہیں روک سکتا۔ اگر یو این او کے پا س کوئی ایسی معلومات ہیں تو ہمیں فراہم کی جائیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رپورٹ بنانے والے جنیوا چلے گئے ہیں تاہم جواب دینے کے لئے کوآرڈینیٹر نے چند روز کی مہلت طلب کی ہے۔ بعدازاں عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ کوآرڈینیٹر کی جانب سے جو معافی مانگی گئی ہے یہ عدالت اور اس کا معاملہ ہے لیکن جہاں تک ایک پولیس افسر کو اس کے قانونی کام سے روکنے کے معاملہ کا تعلق ہے اس پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 353 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ رپورٹ یو این او نے بنائی ہے ہمیں یقین ہے کہ ان کے ذرائع ٹھیک ہوں گے ورنہ نتائج سے خود ہی واقف ہیں۔ بعدازاں سماعت 24 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔ دریں اثناءعدالت نے ظہیر کیانی لاپتہ کیس میں پولیس کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مغوی کا موبائل فون ریکارڈ نکلوانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 10 روز کے لئے ملتوی کر دی۔ آئی این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے لاہور پولےس کو ہدایت کی کہ وہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتہ افرادکے نمائندے کو پولےس دفتر بلا کر تفتےش کرے جبکہ بنچ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان کسی کی کالونی نہیں ہے، اپنے ملک مےں بھی اگر بےن الاقوامی اداروں کے نمائندے پاکستانی افسران کی توہےن کرتے رہےں گے تو برداشت نہےں کےا جا سکتا اگر اقوام متحدہ ورکنگ گروپ کی رپورٹ غلط ثابت ہوئی تو رپورٹ جاری کرنے والوں کو مضمرات بھگتنا پڑےں گے اقوام متحدہ سمیت پاکستان میں کام کرنے والا کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ اگر کسی معاملے میں بھی پاکستانی تفتیشی ایجنسیوں کو پاکستانی آئین کے تحت تفتیش کرنے سے رو کا نہےں جا سکتا عدالتےں واوےلا اسی لئے کرتی ہےں تاکہ ہمارے شہرےوں کی عزت کی جائے ملکی آئین کی ہر صورت عزت کروائیں گے، دستاوےزات کی حد تک تو ہم آزاد ہو چکے ہےں تاہم بین الاقوامی اداروں کا پاکستانیوں کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ دیکھ کر یقین نہیں ہوتا کہ پاکستان 1947ءمیں آزاد ہوا بھی تھا۔ غیر ملکی طاقتوں کے غلام نہےں رہے، غلامی ختم ہو چکی، اب وہ کام کریں جس کی قانون اجازت دیتا ہے۔آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ غیرملکیوں کو اسی طرح استثنیٰ دیا جاتا رہا تو ملک سے جرائم کبھی ختم نہیں ہونگے۔ پولیس اپنے فرائض میں رکاوٹ بننے والے عناصر کیخلاف کارروائی کا مکمل اختیار رکھتی ہے، ہم جنگل میں نہیں رہتے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 47ءمیں ہم غلامی سے کاغذی طور پر آزاد ہوئے، عملی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں۔ اگر ہم خود اپنے اداروں، افسروں اور شہریوں کی عزت کرتے تو بیرون ملک ہمارے شہریوں کو ائرپورٹس پر اور جگہ جگہ ہمارے شہریوں کو گرفتار نہ کیا جاتا۔ یو این کا نمائندہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے کہ پولیس افسر کو دفتر کے اندر تک جانے نہیں دیا جاتا اور ہتک آمیز سلوک کیا گیا ہم اس طرح تذلیل کی اجازت نہیں دے سکتے‘ یہ نمائندہ خود معلومات دینے کی بات کررہا ہے اور اب معلومات دینے سے گریزاں ہے۔