لوڈشیڈنگ اور تاریکی میں فرق؟
لوگ کہتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ نے ہماری روشنی چھین لی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ لوڈشیڈنگ نے میری تاریکی چھین لی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اندھیرا اچھا لگتا تھا۔ ہمارا اندھیرا گہرا تھا مگر اندھا نہ تھا۔ اب چکاچوند کر دینے والی روشنیوں اور اندھا دھند اندھیروں نے ہماری کیفیتیں لوٹ لی ہیں۔ تاریکی اندھیرے سے بڑی چیز ہے۔ جب میں نے بابا جی بابا محمد یحیٰی خاں سے تنہائی کے لئے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تاریکی اور تنہائی دو اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔ غار حرا میں یہی دو نعمتیں میرے آقا و مولا رسول کریم حضرت محمد کو حاصل تھیں تو پھر انہیں وہ نور عطا ہوا کہ ساری دنیائیں جگمگا اٹھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ نور روشنی سے بہت آگے کی چیز ہے۔ اس کی بھی تشریح نہیں کر سکتا۔ مجھے صرف بیان کرنا آتا ہے۔ بیان کرنا اور بیان دینا دو مختلف باتیں ہیں اور سیاستدان اس حقیقت کو سمجھنا نہیں چاہتے۔ وہ تلخ حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ سبق نہیں سیکھتے۔ بھولا ہوا سبق بن جاتے ہیں۔ عبرت نہیں پکڑتے۔ خود عبرت کا سامان بن جاتے ہیں۔ سیاست سوز و ساز سے خالی ہے اور حکومت حکمت سے عاری ہے۔
یہ جو لوڈشیڈنگ کا عذاب ہے یہ اللہ کا عذاب نہیں ہے بندوں کا قہر ایک سزا ہے جبکہ اللہ کا قہر جزا ہے۔ حکمرانوں نے اللہ کے بندوں کو ذلیل و خوار کیا ہوا ہے۔ مہنگائی اور دہشت گردی بھی قیامت سے کم نہیں۔ لوڈشیڈنگ قیامت سے بڑھ کر ہے۔ یہ مصنوعی تاریکی ہے جو لوگوں پر مسلط کر دی گئی ہے ورنہ اندھیرا تو دوست بھی تھا اندھیرے میں نظر بھی آتا تھا۔ جو تاریکی میں دیکھ لے وہی دیکھنے والا ہوتا ہے۔ تب آنکھیں اندر کی طرف کھلتی ہیں۔ حکمرانوں نے غریبی کو بدنصیبی بنا دیا اور اندھیرے کو دشمن بنا دیا۔
سحری کے وقت لوڈشیڈنگ تو اللہ کے غصے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ آپ آدھی رات کو بجلی جانے کے بعد اندھیرے کو دیکھیں اور پھر باہر نکل کر رات کی تاریکی کو دیکھیں۔ فرق صاف نظر آ جائے گا۔ سانولی سلونی سوہنی سہانی دھیمی نرم ملائم اپنی اپنی تاریکی اور کالا شاہ ڈرا دینے والا بیزار کرنے والا بے معنی بے شرم اندھیرا۔
میں ایک رومانٹک صوفی مزاج آدمی ہوں۔ نجانے کہاں سے کہاں چلا جاتا ہوں مجھے سینکڑوں فون آتے ہیں۔ کئی لوگ تو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ تم لکھتے کیوں نہیں۔ میں لکھتا رہتا ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح بات حکمرانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بات ان تک پہنچی ہوئی ہے اور سیاستدان حکمران صرف باتیں بناتے ہیں۔
جو کچھ پیپلز پارٹی والے کہا کرتے تھے وہ آج کل مسلم لیگ ن والے کہہ رہے ہیں اور جو ن لیگ والے کہتے تھے وہ پیپلز پارٹی والے کہہ رہے ہیں۔ پانچ سال گزرنے کے بعد باریاں بدل جائیں گی اور بیانات بھی بدل جائیں گے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے دلچسپ بات کی ہے۔ اب بھی شہباز شریف کو مینار پاکستان میں ٹینٹ لگا کے سرکاری احتجاج کرنا چاہئے۔ خورشید شاہ کو ابھی شہباز شریف کا پوری طرح پتہ نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کر گزریں گے۔ ابھی تو وہ وزیراعظم نواز شریف کے ہر وقت ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ نواز شریف ہمیشہ وزیر شذیر بنانے میں جلد بازی اور من مرضی کرتے ہیں۔ انہوں نے شہباز شریف کو کچھ دیر کے لئے وزیر بجلی و پانی یعنی وزیر لوڈشیڈنگ بنایا ہوتا تو اب تک کام ہو چکا ہوتا۔ شہباز شریف فوری طور پر لوڈشیڈنگ ختم نہ کرتے تو کم از کم یہ تو ہوتا کہ وہ اپنا نام تبدیل کر چکے ہوتے اور مجھے یقین ہے کہ لوگ خوش ہو جاتے۔ یہ پہلا حکمران ہے جس نے اپنا ایک وعدہ تو پورا کیا ہے۔ لطیف کھوسہ نے یہ کہہ کر ٹھیک نہیں کیا کہ شہباز شریف نے پانچ برسوں میں ایک میگاواٹ بجلی پیدا نہیں کی تو پیپلز پارٹی نے بھی نہیں کی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کا اچھا خاصہ تجربہ ہو گیا ہے۔ بڑے بھائی کی وفاقی حکومت چھوٹے بھائی کی پنجاب حکومت میں کیوں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کر رہی ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک لوڈشیڈنگ کے لئے اتنے ناراض ہوئے کہ انہوں نے لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ ملتوی کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ انہوں نے نواز شریف کے اس فیصلے کے بعد کیا ہے کہ انہوں نے توانائی بحران کے لئے اے پی سی ملتوی کی ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں کہ اے پی سی عمران خان کے لئے ملتوی ہوئی ہے۔ اس بات سے پرویز خٹک فوری طور پر بری طرح متاثر ہو گئے ہیں۔ انہوں نے یہ مطالبہ کر دیا ہے کہ واپڈا کو خیبر پختونخوا کے حوالے کیا جائے۔ اسے بھی صوبائی معاملہ قرار دیا جائے۔ خطرہ ہے کہ شہباز شریف اس مطالبے کے خلاف مظاہرہ کریں گے۔ پہلے بھی وہ لوڈشیڈنگ کے لئے صدر زرداری کے خلاف مظاہرے کرتے رہے ہیں مگر یہ مطالبہ نہ کیا تھا۔ یہ غیر سیاسی حرکت ہے۔ پرویز خٹک ابھی ناتجربہ کار ہیں۔ وہ اپنے رول ماڈل شہباز شریف کی پیروی کیا کریں فائدے میں رہیں گے۔ وہ شہباز شریف کے حوالے سے عمران خان کو بھی نظر انداز کریں۔
خدا کے لئے افطار اور سحری کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کریں۔ مجھے بیٹی شبنم مشتاق نے ننکانہ صاحب کے گاﺅں سکھیکھی سے کئی فون کئے ہیں بیٹی سے نہیں ملا مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ مذہبی گھرانے کے لوگ ہیں۔ وہ رو رہی تھی۔ سحر و افطار کے علاوہ سارا سارا دن لوڈشیڈنگ رہتی ہے۔ روزہ کیسے گزاریں؟ میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ایک روزے کے لئے ساٹھ روزوں کا ثواب حاصل ہو گا۔ حکومت والے بھی ”سچے“ ہیں کہ جب لوگ بجلی استعمال نہیں کرتے تو اس وقت لوڈشیڈنگ کا کیا فائدہ۔ ہمارے حاجی صاحبان رمضان کے مہینے میں مہنگائی زیادہ کرتے ہیں۔ اس طرح خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ ان کو ثواب انہیں پیسہ ملتا ہے۔ اس پیسے سے ذخیرہ اندوز اور دکاندار حج کر آتے ہیں۔ اس نیکی میں غریبوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ حاجی صاحبان غریبوں کے لئے بھی تھوڑی سی دعا کر دیتے ہیں حکمرانوں افسروں اور دکانداروں میں کوئی فرق نہیں۔ حکمران بجلی چوروں کو نہیں پکڑ سکتے۔ گراں فروشوں کو نہیں روک سکتے۔ لوڈشیڈنگ کم نہیں کر سکتے۔ بجلی پیدا نہیں کر سکتے تو وہ اور کیا کر سکتے ہیں وہ صرف حکومت کر سکتے ہیں اور دکھ تو یہ ہے کہ انہیں حکومت کرنا بھی نہیں آتا۔
خواجہ آصف اور راجہ رینٹل میں کوئی فرق نہیں۔ کچھ کر نہیں سکتے ہو تو بات تو سلیقے سے کرو۔ اندھیرے اور اندھیر میں فرق کرو۔ خواجہ صاحب یہ بتائیں کہ توانائی کے بحران پر چین کا دورہ ہوا اور بجلی و پانی کے وزیر کو نہیں لے جایا گیا؟ وہ اس وزارت سے استعفیٰ دے دیں۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید دوست ہے اس سے چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ سحر و افطار کو لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ ہم نے مان لیا مگر لوڈشیڈنگ اب بھی ہو رہی ہے تو کوئی بہت بڑی سازش ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ سازش کس کے خلاف ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ سازش کون کر رہا ہے۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ سیالکوٹ میں کوئی مظاہرہ ہو رہا ہے لوڈشیڈنگ کے خلاف اور اس کی قیادت حمزہ شہباز شریف کریں گے۔