• news

پرویز اشرف نے 37.8 ارب روپے پی پی ‘ اتحادیوں کو دئیے ‘ کئی فنڈز لینے والوں کا وجود ہی نہیں ‘ ڈی جی آڈٹ کا سپریم کورٹ میں بیان

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+نوائے وقت نیوز+اے پی اے+این این آئی) سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی آڈٹ نے بتایا کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے فنڈ سے 37-8 ارب روپے پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کو ملے۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس میں کہا کہ سابق وزیراعظم نے محض ووٹ کھرے کرنے کیلئے اربوں روپے لٹا دئیے، معاملات شفاف انداز سے ہوں گے ارکان پارلیمنٹ کا کام نالیاں اور فٹ پاتھ بنانا نہیں، عوام کے پیسہ سے شروع ہونے والے کسی بھی منصوبے کو قواعد و ضوابط کے تحت مکمل ہونا ہے ، وزیراعظم تو پورے ملک کا ہوتا ہے ، کسی خاص علاقے کا نہیں، توقع تھی کہ نئی حکومت آکر کہے گی کہ وہ خود معاملے کو دیکھے گی، قوم اب سب ڈرامے سمجھتی ہے اسی لئے انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں، اگر وزیراعظم نے صوبدیدی اختیار استعمال کرنا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ووٹوں کیلئے لوگوں کی نالیاں بھی خود بنواتا پھرے، وفاقی حکومت کو واضح بیان دینا ہوگا کہ یہ سب غلط تھا اب ایسا نہیں ہوگا، یہ بات غلط ہے کہ پانچ سال تو حکومت کچھ نہ کرے اور حکومت کے آخری دنوں میں محض ووٹ حاصل کرنے کیلئے اپنے لوگوں کو نوازنا شروع کردے۔ قومی خزانے سے رقم کسی مامے چاچے کو نہیں دی جائے گی بلکہ تمام معاملات شفاف انداز سے ہونگے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے مو¿قف اختیار کیا کہ قومی خزانے کی رقم قومی مجموعی فنڈ اور عوامی اکاو¿نٹ کی مد میں رکھی جاتی ہیں۔ مجموعی فنڈ سے رقم کا استعمال قومی اسمبلی کی منظوری سے ہوتا ہے۔ حکومت قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر رقوم کے استعمال کی مجاز نہیں۔ گزشتہ بجٹ میں وزیراعظم کا صوابدیدی ترقیاتی فنڈ بائیس ارب روپے رکھا گیا۔ بعد میں یہ رقم بڑھ کر باون ارب روپے تک جا پہنچی۔ ڈی جی آڈٹ ملک منظور نے بتایا کہ راجہ پرویز اشرف کے فنڈ سے 37-8 ارب پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کو ملے۔ صوابدیدی فنڈ کی تقسیم میں منصوبہ بندی کمیشن کی گائیڈ لائن کی پیروی نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ ق لیگ کو 7ارب 80کروڑ روپے، ایم کیو ایم کو ایک ارب 90کروڑ روپے، اے این پی کو ایک ارب70کروڑ روپے دیے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیپرا قواعد گڑ بڑ روکنے کیلئے ہیں۔ پلاننگ ڈویژن بھی اس کا پابند ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ صوابدیدی اختیارات کو بھی ایک نظام کے تحت استعمال کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ سابق وزیراعظم نے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے وقت ان فیصلوں کو پیش نظر نہیں رکھا۔ ارکان اسمبلی کے ترقیاتی فنڈ کابینہ ڈویژن کے مطالبات زر میں رکھے جاتے ہیں۔رولز آف بزنس کے تحت ترقیاتی کام کابینہ ڈویژن کی ذمہ داری نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کا کام نالیاں اور فٹ پاتھ بنانا نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد بلدیاتی امور صوبوں کو منتقل کئے جا چکے ہیں۔ وفاقی حکومت صوبوں پر اعتماد کرے اور یہ معاملہ ان پر چھوڑ دے۔ متعدد بار کہہ چکے ہیں بلدیاتی ادارے فعال بنانے کیلئے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ پرویز اشرف کے دور میں صوابدیدی ترقیاتی فنڈ غیر منتخب افراد میں بھی تقسیم ہوا۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ فنڈ اور سرکاری خزانہ عوام کی ملکیت ہے، ایک پائی بھی منظوری کے بغیر خرچ نہیں کی جاسکتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بجٹ منظور ہوتا ہے اور پھر اضافی اخراجات مطالبات زر کی صورت میں پاس ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نئے وزیراعظم کا صوابدیدی ترقیاتی فنڈز ختم کرنا اچھا اقدام ہے، پرویز اشرف کے دور میں بھی صوابدیدی ترقیاتی فنڈ غیر منتخب افراد میں بھی تقسیم ہوا۔ ڈی جی آڈٹ ملک منظور نے عدالت کو بتایا کہ جن معززین کے نام فنڈز جاری کئے گئے ان میں سے کئی کا وجود ہی نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ 50فیصد سے زائد ترقیاتی سکیمیں غیر شفاف ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ آپ ترقیاتی سکیموں کا آڈٹ کیسے کرتے ہیں؟ ڈی جی آڈٹ نے بتایا کہ پلاننگ کمیشن کی گائیڈ لائنز کو مدنظر رکھ کر آڈٹ کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے پیسے سے شروع ہونے والے منصوبے کو قواعد کے تحت مکمل ہونا ہوتا ہے۔ انتخابات کے قریبی دنوں میں پرچی جاری کی جاتی رہی توقع تھی کہ نئی حکومت آکر کہے گی کہ وہ خود معاملہ دیکھے گی ۔ وزیراعظم تو پورے ملک کا ہوتا ہے کسی خاص علاقے کا نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے صوابدیدی فنڈز جاری کرتے وقت سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظرنہیں رکھا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل84 کے تحت وزیراعظم کے اختیار کو نیک نیتی سے استعمال ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ترقیاتی منصوبوں کی رقم نکالنے کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟ ترقیاتی فنڈز شفاف طریقے سے استعمال ہوئے یا مامے چاچے کو دے دئیے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا رقم نکالنے کی وجوہات فائل پر موجود نہیں۔ وزیراعظم تو سب کا ہوتا ہے، بجلی دینی ہے تو سب کو دیں سیاسی رشوت تو نہ دیں۔ کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن