• news

صدر زرداری اور صدر پاکستان

صدر زرداری بغیر کسی کام کے باہر چلے گئے شاید وہ اپنی صدارت کے آخری دن پاکستان میں نہیں گزارنے چاہتے تھے یہ ان کی ضد تھی کہ وہ حکمران بنیں گے۔ پارلیمانی نظام میں انہیں وزیراعظم بننا چاہئے تھا مگر انہوں نے صدر بن کے بھی وزیراعظم کے اختیارات انجوائے کئے۔ انجوائے کرنا استعمال کرنے سے آگے کی چیز ہے اب آنے والا کیا انجوائے کرے گا۔ غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، محمود اچکزئی، ظفر اقبال جھگڑا، سرتاج عزیز، ظفراللہ جمالی وغیرہ وغیرہ۔ زرداری صاحب کو مخالفین کے ساتھ ضد تھی یا اپنی بیوی بی بی صاحبہ کے ساتھ ضد تھی؟ بی بی کے ہوتے ہوئے تو وہ پاکستان نہ آ سکتے تھے۔ ایوان صدر کیسے جاتے۔ بی بی شاید صدر زرداری کے لئے شہید ہوئی تھی۔ بی بی کا بدلہ انہوں نے پاکستانیوں سے لیا۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ابھی پاکستان نہیں آئیں گے کبھی آئے تو سندھ میں آئیں گے۔ جب نواز شریف نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو اس کے بعد صدر زرداری کا کام ختم ہو گیا تھا۔ وہ تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے عادی تھے۔ وہ ابھی تک نواز شریف کو اپوزیشن لیڈر سمجھتے ہوں گے جتنا انجوائے کیا ایوان صدر کو صدر زرداری نے اتنا تو کسی فوجی صدر نے بھی نہ کیا ہو گا۔ صدر زرداری نے ایوان صدر کو اپنا ڈیرا بنا لیا تھا۔ پیپلز پارٹی یعنی زرداری پارٹی کا صدر دفتر بنا لیا تھا۔ بہت رونقیں رنگارنگیاں بلکہ رنگ رلیاں رنگ بازیاں پچھلے پانچ سال میں ایوان صدر نے دیکھی ہیں۔ فوجی صدر کے لئے ایک شعر بنایا گیا تھا مگر وہ صرف صدر زرداری پر صادق آتا ہے
تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے
یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
کیا پارلیمانی نظام میں ایسا صدر ہو سکتا ہے؟ ایوان صدر ہمیشہ انہیں یاد کرے گا۔ ہمارے ملک میں دو قسم کے صدر آئے ہیں۔ فضل الٰہی جیسے اور صدر ایوب جیسے۔ صدر اسحاق اور صدر لغاری نے دونوں طرح کے معاملات انجوائے کئے مگر اس کی مکمل اور صحیح مثال صدر زرداری ہیں۔ ان میں پاکستانی صدر کی ساری اقسام پوری طرح موجود تھیں۔ سارے انداز انہوں نے اپنے انداز صدارت میں بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے سارے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دئیے ہیں اور پھر انہوں نے خود ان اختیارات کو کھل کر استعمال کیا۔ انہوں نے بے اختیاری سے بھی اختیار کا کام لیا۔ ان کی ساری ”کامیاب“ سیاست کا راز ان کا صدر پاکستان ہونا ہے۔ اب بھی خطرہ تو ہے کہ وہ کچھ کریں گے مگر نواز شریف بھی کم نہیں۔ سو سنار کی ایک لوہار کی۔
وہ چلے گئے ہیں اور اب نئے صدر کے انتخاب کا مرحلہ آ گیا ہے۔ منتخب لوگوں نے یہ انتخاب کرنا ہے مگر یہ صرف نواز شریف کی صوابدید پر ہے۔ سپریم کورٹ کون کون سے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ گیلانی اور راجہ کو صدر زرداری نے وزیراعظم نامزد کیا اب وزیراعظم نواز شریف صدر پاکستان کو نامزد کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کے طور پر بھٹو صاحب نے یہ معرکہ آرائی کی تھی۔ صدر فضل الٰہی چودھری اور صدر رفیق تارڑ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے پارلیمانی نظام میں صدر یہی کچھ ہوتا ہے۔ صدر فضل الٰہی کے لئے کئی لطیفے بنے اور تارڑ صاحب کو خود بہت لطیفے یاد ہیں۔ بے اختیار ہوتے ہوئے صدر رفیق تارڑ کا وقار اور اعتبار پوری طرح قائم رہا۔ آخر میں انہی کے دستخطوں سے نواز شریف کی سزا معاف ہوئی اور وہ سعودی عرب چلے گئے۔ اب بھی جو صدر آئے گا وہ صدر رفیق تارڑ جیسا نہیں ہو گا۔ میں تو اب بھی چاہتا ہوں کہ انہیں صدر بنا دیا جائے۔ یہ بات اس سے مختلف ہے کہ ڈاکٹر قدیر کو صدر بنا دیا جائے۔ اب تو یہ توہین آمیز مطالبہ بن گیا ہے۔ رفیق تارڑ نے رفاقت اور صدارت میں فرق مٹا دیا۔ اس بار نواز شریف کے لئے آسانی تو شاید ہو آسودگی نہیں ہو گی۔
میرے خیال میں سب سے موزوں آدمی غوث علی شاہ ہیں۔ وہ نظریاتی آدمی ہیں۔ مجید نظامی بھی ان کو دوست رکھتے ہیں نظامی صاحب سرتاج عزیز کے لئے بھی اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ وہ بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ آتے رہتے ہیں۔ نجانے محمود خان اچکزئی اتنے قریب نواز شریف کے کس طرح ہو گئے ہیں۔ انہوں نے سپیکر بننے سے انکار کر دیا تھا اور نواز شریف سے کہا میں تمہارا دوست ہی رہنا چاہتا ہوں یہ بہت معنی خیز جملہ ہے۔ اب بھی خطرہ ہے کہ وہ ایوان صدر میں جا کے اتنے دوست نہیں رہیں گے۔ محمود اچکزئی نے اپنے بھائی محمد اچکزئی کو گورنر بلوچستان بنوا لیا ہے اور دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ میری ہمدردی ڈاکٹر عبدالمالک کے ساتھ ہے۔ وہ آدمی اچھے ہیں۔ سردار بھی نہیں ہیں مگر ابھی کامیاب نہیں ہو رہے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ دوسری باری کے دور میں بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ مجاہد صحافت بہادر اور بے باک انسان مجید نظامی کو کرسی صدارت کی پیشکش کی تو انہوں نے کہا کہ میرے لئے نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر کی کرسی زیادہ بیش بہا ہے اور میں صدر بن گیا تو نوا ز شریف دو دن بھی نہیں چل سکے گا۔ آپ کے لئے فائدہ ہے کہ مجھے صدر نہ بناﺅ۔ اتنے فائدے کے لئے نواز شریف محمود اچکزئی کو صدر نہ بنائیں۔ عظیم مزاح نگار مشتاق یوسفی نے لکھا ہے کہ پٹھان ایک ذہنیت کا نام ہے اور یہ کسی آدمی پر کسی وقت بھی طاری ہو سکتی ہے۔ ظفراللہ جمالی مرد کہستانی نہیں ہیں۔ صدر مشرف کے ڈر سے انہوں نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا۔ دو دن پہلے کہا تھا کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔ انہوں نے اس منصب سے ہٹائے جانے کے لئے الزام چودھری شجاعت پر ڈال دیا مگر انہیں وزیراعظم بنوایا بھی تو چودھری شجاعت نے تھا ورنہ جنرل مشرف بلوچستان کی زبیدہ جلال کو وزیراعظم بنانے والے تھے۔ زبیدہ جلال نواز شریف کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے وہ بھی صدارتی امیدوار ہو سکتی ہے۔
ممتاز بھٹو کے لئے بھی میری رائے اچھی نہیں ہے۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے ساتھ وفا نہ کی۔ انہوں نے ممتاز صاحب کو ٹیلنٹڈ کزن کہا تھا مگر وہ اپنا ٹیلنٹ وزیر اعلیٰ کے لئے ثابت نہ کر سکے۔ وہ بینظیر بھٹو کے بھی خلاف رہے۔ وہ بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو کے ساتھ بھی بنا کے نہ رکھ سکے۔ جو مہربانی اب تک ممتاز بھٹو کے ساتھ نواز شریف کر چکے ہیں کافی ہے۔ نجانے وہ نواز شریف کوپسند کیوں ہیں؟ وہ صدر زرداری کے بھی خلاف تھے مگر ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ایوان صدر میں انہیں صدر زرداری کے بالکل سامنے بٹھایا گیا جو سیاسی مروت کے مطابق نہیں تھا۔ حلف وفاداری کی تقریب میں شرکت کے لئے وہ آئے تو ان کے استقبال کے لئے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بھیجا گیا۔ انہوں نے وزیراعظم ہاﺅس میں رہنے سے انکار کر دیا تو ان کے لئے خصوصی طور پر کہیں دوسری جگہ ان کے من پسند محل میں انتظام کیا گیا۔ گورنر سندھ کے لئے بھی وہ قابل قبول نہیں ہوں گے۔ یہ بھی سیاسی مصلحت کے خلاف ہو گا جہاں تک ظفر اقبال جھگڑا کا تعلق ہے تو وہ کبھی جیت نہیں سکے مگر نواز شریف کو جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ جو نام لئے جا رہے ہیں ان سے بہت مختلف کوئی آدمی ہو گا۔ جو صرف نواز شریف کو معلوم ہے شاید شہباز شریف کو بھی معلوم ہو۔ شہباز شریف کی رائے کو اہمیت دی جائے تو اچھا ہو گا مگر چودھری نثار علی خان سے مشورہ نہ کیا جائے۔ آرمی چیف کے لئے تو بالکل نہ کیا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن