• news

پاکستان کا 27ویں رمضان المبارک کو قیام ملک میں نفاذ نظام قرآن کی طرف اشارہ ہے: ایوان وقت میں مذاکرہ

لاہور (سیف اللہ سپرا) اسلام کا نظام انسان کو اس کی زندگی کے تمام مراحل کے بارے میں رہنمائی فرماتا ہے۔ ارکان اسلام میں دوسرے نمبر پر روزہ ہے۔ دوسری تمام عبادات کے مقابلے میں روزے کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا اجر خود دینے کا وعدہ کیا ہے۔ روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں بلکہ یہ انسان کی کردار سازی کرتا ہے اور جن قوموں کی کردار سازی ہوتی ہے وہی ترقی کرتی ہیں۔ رمضان کی فضیلت کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ اس ماہ مبارکہ میں قرآن کریم نازل ہوا اس مہینے میں عبادات کا اجر و ثواب باقی تمام مہینوں سے زیادہ ہے۔ اس مہینے میں ہی اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں الگ وطن عطا فرمایا اور 27ویں رمضان المبارک کو اس دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک اسلامی ریاست ابھری 27ویں رمضان المبارک کو پاکستان کا قیام اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ملک کے اندر قرآن کا نظام نافذ ہو گا۔ یہ فرض اور قرض حکمرانوں کے ذمہ ابھی باقی ہے۔ آج پاکستان کئی قسم کے بحرانوں کا شکار ہے۔ اگر اس ملک میں نظام مصطفی رائج ہو اور صحیح معنوں میں اس پر عمل ہو تو تمام بحران ختم ہو سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے روزنامہ نوائے وقت، دی نیشن اور وقت نیوز کے زیراہتمام روزے کی اہمیت اور فضیلت کے موضوع پر ایوان وقت میں منعقدہ مذاکرات میں کیا۔ مذاکرے کے شرکاءمیں ممتاز مذہبی سکالر علامہ احمد علی قصوری، رکن اسلامی نظریاتی کونسل علامہ زبیر احمد ظہیر، مذہبی سکالرز مولانا محمد امجد خان، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے کیا۔ نظامت انچارج ایوان وقت سیف اللہ سپرا نے کی۔ ممتاز مذہبی سکالر علامہ احمد علی قصوری نے کہا کہ اسلام کا نظام رحمت انسان کی ہر شعبہ میں رہنمائی فرماتا ہے اور علم و یقین کے ساتھ اس کی تربیت کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ ارکان اسلام میں کلمہ طیبہ کے بعد سب سے پہلے نماز، دوسرے نمبر پر روزہ اور تیسرے نمبر پر زکوٰة چوتھے نمبر پر حج اور پانچویں نمبر پر جہاد یہ سب کی سب مختلف رنگوں کی عبادتیں ہیں جن کا مقصد انسانی زندگی کو سنوارنا ہے۔ روزے کی عبادت کا باقی تمام عبادات کے مقابلے میں ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس میں ریاکاری ممکن نہیں ہے۔ ایسی عبادت ہے کہ حقیقی طور پر یہ یا وہ بندہ جانتا ہے یا اس کا رب جانتا ہے۔ رمضان اور قرآن کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ قرآن کریم میں صرف رمضان کا نام آتا ہے کسی اور مہینے کا نام نہیں آتا۔ روزے کی عبادت انسان کو ضبط نفس کی بہترین مشق کراتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں روزے تم پر اس لئے فرض کئے کہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاﺅ۔ تقویٰ یہ ہے کہ مستحکم ارادہ کرے کہ صاف ستھری زندگی بسر کرنی ہے۔ رکن اسلامی نظریاتی کونسل علامہ زبیر احمد ظہیر نے کہا کہ اسلام دین رحمت ہے اور یہ جو نزول کلام مجید کا مہینہ ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مہینہ ہے مگر رحمت اللہ تعالیٰ کی انہی لوگوں کو حاصل ہو گی جو دوسروں کے لئے بھی باعث رحمت بننے کی کوشش کرتے ہیں اور روزے کی فرضیت کا جو مقصد ہے وہ یہی ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کی بھوک اور پیاس کا احساس کریں۔ میں سمجھتا ہوں کا اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کر کے روئے زمین کے انسانوں پر اور بالخصوص غریبوں پر احساس عظیم فرمایا ہے۔ اگر روزے نہ ہوتے تو شاید امرا اور کھاتے پیتے لوگوں کو غریبوں کی بھوک اور پیاس کا احساس بھی نہ ہوتا۔ یہ مہینہ انہی لوگوں کے لئے باعث رحمت ہو گا جو مخلوق خدا پر رحم کرنے والے اعمال سرانجام دیں۔ ممتاز مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے کہا کہ ماہ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ نبی کریم نے اس ماہ مبارک کی عظمتوں اور برکتوں سے امت کو آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور تیسرا عشرہ نار جہنم سے رہائی کا عشرہ ہے۔ نبی کریم نے فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کی جزا جنت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم معاشرے کے زیردست طبقوں کے ساتھ اپنے حسن سلوک اور ان کی مدد اور اعانت کرتے ہوئے ان کے حالات اور غموں میں شریک ہوں۔ جامعہ رحمانیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد امجد خان نے کہا کہ مسلمان اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ایک بار پھر ہمیں رمضان المبارک کی مقدس بہاریں نصیب ہوئیں۔ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کو بیان کرتے ہوئے اس کے مقصد کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے کہ ہم تمہارے دلوں سے سارے خوف اور ڈر نکال کر صرف اپنا ڈر اور خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے اللہ رب العزت نے کائنات میں انبیاءکرام کو بھیجا۔ رسول اکرم نے بھی اس مقصد پر محنت فرمائی۔ پھر یہ مہینہ عام معافی کا مہینہ کہلائے گا۔ یہ وہ ماہ مقدس ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت گناہگاروں کو بلا بلا کر نوازتی ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں معاشرے کے ان غربائ، مساکین یتیموں اور بیوگان کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ جن کے گھر میں دسترخوان صرف ایک بار سجتا ہے۔ ہم اگر اسلامی تعلیمات پر غور کریں تو زکوٰة کا نظام صدقہ اور عید کے موقع پر فطرانہ اور قربانی میں غریبوں کو برابر کا حصہ دار رکھا گیا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں معاشرے کے غربا کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ 

ای پیپر-دی نیشن