ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ۔۔۔ مٹی پاﺅ
ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ۔۔۔ مٹی پاﺅ
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا دعوٰی کرکے امریکی گن شپ ہیلی کاپٹرز نے پاکستان میں آپریشن کرنے کے بعد یہ دعوٰی کیا کہ اسامہ بن لادن کو سمندر برد کردیا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی کمیشن جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کیا جس نے کثیر تعداد میں لوگوں سے تحقیقات کیں اور اس کمیشن کی رپورٹ ابھی سرکاری طور پر منظر عام پر نہیں لائی گئی تھی کہ دعوٰی کیا گیا کہ سرکاری اہلکار نے رپورٹ 15 لاکھ روپے میں عالمی میڈیا کو فروخت کردی ہے۔
جنرل شجاع پاشا نے کہا کہ میڈیا والے تو غیر ملکی ایجنٹ اور بکاﺅ مال ہیں۔ میرے خیال میں بھی کچھ ایسے لوگ میڈیا میں موجود ہیں جو غیر ملکی ایجنسیوں کے پے رول پر ہیں اور وہ ہمیشہ پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کو بدنام کرنے اور ان اداروں کا مورال گرانے پر کاربند رہتے ہیں۔ ایسے غیر ملکی ایجنٹ صحافی حضرات کی بات چیت اور مختلف پروگراموں میں موضوعات سے اب عوام بھی ان کے کردار سے اچھی طرح واقف ہوچلے ہیں کہ کس کس طرح حیلے بہانے سے یہ غیر ملکی ٹاﺅٹ پاکستان کی سلامتی کے ضامن اداروں کا مورال گرانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
ایبٹ آباد کے واقعے سے کم از کم ہمیں بحیثیت قوم ہماری اصلیت کا علم ہوگیا ہے اور ہر ادارے کی حقیقت واضح ہوگئی ہے۔ اس واقعے نے ہمارے ریاستی نظام کے کھوکھلے پن کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ جنرل پاشا کی اس رائے کی بھی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان اگر ناکام نہیں تو ناکام ہوتی ہوئی ریاست ضرور ہے۔ اس واقعے کے بعد ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم لکیر پیٹتے رہیں اور اپنی اصلاح نہ کریں اور اپنے قومی اداروں کا مورال گرائیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کا ذکر کرنے کی بجائے اس سے سبق حاصل کریں اور اپنے سول و ملٹری اداروں کے درمیان مربوط ہم آہنگی اور قومی پالیسی کے تحت حکمت عملی کا آغاز کریں اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا شائبہ تک نہ رہے۔
اس رپورٹ کی آڑ لیکر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا ایسا عمل شروع کردیا گیا ہے جس میں ایک طرف فوج کے حق میں بولنے اور لکھنے والے سول اداروں کو ناکام قرار دینے میں 24 گھنٹے کوشاں ہیں اور ایسے ایسے دلائل سے جمہوریت کو ناکام قرار دے رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اسی طرح فوج پر الزام تراشی کرنیوالے سیاستدان‘ حکمران اور چند غیر ملکی پے رول پر موجود دانشور بھی صف آراءہوگئے ہیں اور پاکستان کی فوج اور ایجنسیوں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لئے ایسی میڈیا مہم کا آغاز کیا گیا ہے کہ یہاں بھی اللہ کی پناہ۔
ایبٹ آباد کمیشن کی جو رپورٹ منظر عام پر آئی ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں زبردست تضادات ہیں۔ کمیشن کے سامنے جنرل پاشا نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ نائن الیون کے بعد سی آئی اے اور آئی ایس آئی اتحادی بن کر انٹیلی جنس شیرنگ کا آغاز کرنے لگے لیکن اس بیان میں آگے جاکر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سی آئی اے کی سازشوں کا مقابلہ کرنا‘ آئی ایس آئی کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ گویا یہ بات واضح نہیں کہ امریکہ دوست ہے یا دشمن؟ اسی بیان میں ایک جگہ انہوں نے ڈرون حملوں کے فوائد کا ذکر کیا اور ساتھ ہی ساتھ ڈرون حملوں کو پاکستان کی خودمختاری کے خلاف بھی قرار دیا۔ اس صورتحال میں ہمارے موقف اور حقیقت میں ہماری پالیسی کے کنفیوژن کا پتہ چلتا ہے۔
اب میرے خیال میں ایبٹ آباد واقعے اور اسکی رپورٹ کے بعد اور درج بالا حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد ہمیں اس میں جزاءو سزا اور قصوروار ٹھہرانے کی دوڑ سے نکل کر مستقبل کے لئے سول و ملٹری قیادت کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ اب وزیراعظم میاں نوازشریف کی جانب سے دہشت گردی کے بارے میں قومی کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے اور اس قومی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں ‘ سول و ملٹری اداروں کے سربراہان اور آئی ایس آئی چیف سمیت دیگر اہم سرکاری افسران کو سر جوڑ کر معنی خیز طریقے سے قومی پالیسی وضع کرنی چاہئے اور اس قومی پالیسی پر ہر پہلو سے بھرپور عملدرآمد کا آغاز کیا جائے اور اس بارے میں پوری قوم یک زبان ہوکر بات کرے۔ اب مستقبل میں ڈرون حملوں کے بارے میں ہر سیاسی جماعت کی اپنی اپنی بات نہیں ہونی چاہئے بلکہ قومی کانفرنس کے بعد ہر سیاسی جماعت اور سول و ملٹری قیادت کی ایک ہی بات ہو جس سے قوم کے اتحاد اور یگانگت کا رنگ نظر آئے۔
داخلی معاملات پر بھی دہشت گردی کے بارے میں قومی کانفرنس میں مکمل اور جامع پالیسی مرتب کی جانی چاہئے اور فاٹا‘ بلوچستان اور کراچی سمیت بدامنی و دہشت گردی کے بارے میں ڈرون حملوں کی طر ح پوری قوم کا ایک ہی موقف سامنے آنا چاہئے اور داخلی معاملات میں صرف طاقت کا مظاہرہ ضروری نہیں بلکہ داخلی معاملات میں ملٹری قیادت سے زیادہ ذمہ داری سول قیادت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ملٹری تو غیر ملکی سازشوں سے نبردآزما ہونے کے لئے بنائی جاتی ہے۔ اب ویسے بھی پاکستان خارجی محاذ پر کئی محاذوں پر عملی طور پر جنگ لڑ رہا ہے اور پاکستان کی مسلح افواج ملکی سلامتی کے لئے کوشاں ہیں اس لئے داخلی معاملات میں سیاستدانوں اور علماءکا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ داخلی معاملات میں جہاں جہاں بات چیت اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے اس پر قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرکے فوری طور پر عملی اقدامات کا آغاز ہونا چاہئے۔ جس طرح سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن تو ملٹری فورسز نے کردیا ہے مگر میرے خیال میں ہماری سیاسی قیادت سوات میں اپنا سیاسی کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔
اسی طرح ہم غیروں کے مفادات کی خاطر قطر اور ابوظہبی جاکر طالبان سے مذاکرات کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور انکے اشارے پر پاکستان کے لئے منعقد کی گئی سرمایہ کاری کانفرنس دبئی میں ہوئی ۔ گزشتہ دور حکومت میں ہمارے وزیراعظم اہم قومی معاملات چھوڑ کر طالبان سے مذاکرات کے لئے قطر گئے تاکہ امریکہ کی افغانستان سے جان چھڑائی جاسکے۔ چند ممالک نے بلوچستان میں جو آگ بھڑکائی ہوئی ہے اس کو بجھانے کے لئے ہماری قیادت کے پاس کوئی وقت نہیں اور دبئی میں بیٹھے ناراض بلوچ رہنماﺅں کے پاس جاکر بات چیت کا آغاز نہیں کیا جارہا جس سے سول قیادت کی ناکامی صاف ظاہر ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوتے اور بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی مسائل حل ہوتے ہیں تو ہم بلوچستان میں بات چیت سے کیوں کنارہ کشی کر رہے ہیں؟ اگر سیاسی قیادت بلوچستان میں اپنا کردار ادا کرنے سے جان چھڑارہی ہے اور حکومتی احکامات پر بلوچستان میں رینجرز اور ایف سی کے ذریعے معاملات سنبھالنے کی کوشش ہورہی ہے تو پھر وفاقی وزیر داخلہ اور سرکاری پارٹی کے کسی شخص کو بلوچستان یا کہیں بھی ایف سی اور ملٹری فورسز کے خلاف بات کرنے کا حق نہیں پہنچتا کیونکہ یہ فورسز خودبخود کہیں پر خدمات انجام دینے نہیں پہنچ جاتیں بلکہ وفاقی وزارت داخلہ کے احکامات پر انہیں تعینات کیا جاتا ہے اور ان کی اچھی یا بری کارکردگی کی مکمل ذمہ داری بھی ان کی تعیناتی کے ا حکامات جاری کرنیوالے کے سر ہوتے ہیں۔
بہرحال میری رائے میں تو اب ایبٹ آباد کمیشن کے متعلق ڈھول پیٹنے کی بجائے ہماری سول و ملٹری قیادت اور تمام سیاسی جماعتیں خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ داخلی پالیسی بھی تشکیل دیں اور سیاستدان داخلی محاذ پر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی شروع کریں ورنہ کہیں دیر نہ ہوجائے اور مہنگائی‘ بے روزگاری‘ دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ مصر کی طرح سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔