جنرل ڈیمپسی کا انسدادِ دہشت گردی میں پاکستان کے توقعات پر پورا نہ اترنے کا اظہار....پاکستان دہشتگردی کی جنگ سے الگ ہوا تو امریکہ مکمل شکست سے دوچار ہو جائیگا
جنرل ڈیمپسی کا انسدادِ دہشت گردی میں پاکستان کے توقعات پر پورا نہ اترنے کا اظہار....پاکستان دہشتگردی کی جنگ سے الگ ہوا تو امریکہ مکمل شکست سے دوچار ہو جائیگا
امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے برملا اعتراف کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر القاعدہ کو شکست نہیں د ے سکتا، دہشت گردی کیخلاف جنگ اور علاقائی امن واستحکام کے فروغ میں ہمارے مفادات مشترکہ ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان موثر فوجی تعاون کے لئے سکیورٹی معاونت کے پروگرام ناگزیر ہیں، میں نے ماضی میں جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بہت مفید رابطے رکھے۔ گزشتہ روز سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اجلاس میں تحریری بیان میں جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہاکہ ہمارا سٹریٹجک اور قومی سلامتی کا ہدف آج بھی یہی ہے کہ القاعدہ کو شکست دی جائے، اس کا ڈھانچہ ختم کیا جائے ، اسے تتربتر کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ پاکستان اور افغانستان میں محفوظ ٹھکانہ نہ بنا سکے تاہم یہ کام پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مستحکم پاکستان میں ہی ہمارا مفاد ہے۔ انسداد دہشت گردی میں پاکستان کا تعاون ہماری توقعات پر کبھی پورا نہیں اترا،2009ءسے پاکستان سوات ، شمالی اور جنوبی وزیرستان ، مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں سمیت شمال مغربی قبائلی علاقے میں دہشت گردوںاورانتہا پسند تنظیموں کیخلاف کارروائیاں کررہا ہے لیکن اس کے نتائج ملے جلے آئے ہیں۔
امریکہ نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ کا آغاز کیا تو اس میں کامیابی کیلئے پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ رابطے پر پاکستان نے مثبت جواب دیا اور اس وقت کے حکمرانوں نے افغانستان کی طالبان حکومت کیخلاف جنگ کیلئے امریکہ کو اپنی سرزمین پیش کر دی۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے پاکستان کے تعاون سے افغانستان میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں‘ ان میں پاکستان کی جانی و مالی قربانیاں سرفہرست ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کے باعث جہاں پاک فوج کے پانچ ہزار سپوتوں سمیت چالیس ہزار سے زائد پاکستانی اپنی جان سے گئے‘ معیشت غرقاب ہوئی‘ وہیں قوم بھی بٹ گئی اور افغان جنگ کے شعلوں نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حالات اس نہج پر جا پہنچے کہ پاکستان کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دینا پڑا اور آج پاکستان اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑ رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے سے بھی یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی کہ بنیادی طور پر یہ امریکہ کی ہی جنگ ہے جس کا حصہ اسکے اتحادی بنے اور پاکستان بھی۔ اس جنگ میں پاکستان کی خدمات اور قربانیوں کے اعتراف میں ہی امریکہ اسے فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا ہے۔ قطع نظر اسکے کہ جنگ میں کون جیتا‘ امریکہ اگلے سال افغانستان سے انخلاءکر رہا ہے۔ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ افغانستان کیخلاف جنگ جاری رکھ سکتا تھا‘ نہ ہی اب اس کا افغانستان سے پرامن انخلاءممکن ہے۔ انخلاءکے اعلان اور تیاریوں کے باوجود ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ امریکیوں کو اپنے آخری فوجی کی افغانستان سے بحفاظت روانگی تک پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی ملک پاکستان کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
جنگوں میں کامیابی کیلئے اتحادیوں کے مابین اعتماد کا ہونا ناگزیر ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی طوالت کی ایک وجہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا اپنے فرنٹ لائن اتحادی پاکستان پر عدم اعتماد بھی ہے جس کا اظہار امریکی انتظامیہ وقتاً فوقتاً کرتی رہی ہے جیسا کہ جنرل ڈیمپسی نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اجلاس میں دیئے گئے تحریری بیان میں کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی میں پاکستان کا تعاون ہماری توقعات پر کبھی پورا نہیں اترا۔ ڈیمپسی کی یہ سٹیٹ منٹ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کی توہین ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے مابین پہلے سے موجود بداعتمادی اور بدگمانی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ کو ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان آج دہشت گردی کی جنگ سے الگ ہو جائے تو امریکہ پر اسی طرح جانکنی کا عالم طاری ہو جائیگا جیسا نیٹو سپلائی کے معطل کئے جانے کے بعد ہوا تھا جس کی بحالی کیلئے اسے ناک سے لکیریں نکالنی پڑی تھیں۔ ڈیمپسی کے بقول پاکستان 2009ءسے سوات‘ شمالی و جنوبی وزیرستان‘ مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں سمیت مغربی علاقے میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کیخلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ ان علاقوں میں مصروف پاکستانی سکیورٹی فورسز اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا کر اپریشن کررہی ہیں جس میں وہ شدید نقصان سے بھی دوچار ہوتی ہیں۔ سو فیصد کامیابی اگر نہیں ہوتی تو اس پر بداعتمادی کا اظہار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کیا جدید ترین اسلحہ سے لیس مقبوضہ افغانستان میں طالبان کیخلاف امریکہ اور اتحادیوں کے تمام اپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں؟ ویتنام سے کیا امریکہ فتح کے جھنڈے لہراتا ہوا واپس گیا تھا؟ جس کی وجہ سے پاکستان برباد ہوا‘ وہی اس پر عدم اعتماد کا اظہار کریں تو یہ افسوسناک ہے۔
پاکستان کی سرزمین پر ایک تو پاک فوج کے عسکریت پسندوں کیخلاف اپریشنز کے ردعمل میں آگ بھڑک رہی ہے‘ دوسری طرف ڈرون حملوں نے اسے الاﺅ بنا دیا ہے جس میں اکثر بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر جو بھی موقف اپنایا جائے‘ عام پاکستانی اس اقدام پر امریکہ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اسکے باعث ہی حکمرانوں کو منافقانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ڈرون حملوں کی مذمت کرنا پڑتی ہے۔ پرویز مشرف کے بقول امریکہ اور پاکستان کے مابین ڈرون حملوں کے حوالے سے معاہدہ موجود ہے‘ حکمران اسے منظرعام پر لا کر عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں۔ اگر وہ معاہدہ منسوخ کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو اس کا ازسرنو جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو جہاں ہائی ویلیو ٹارگٹ کی انٹیلی جنس ملتی ہے‘ وہ کارروائی کیلئے پاکستان کو کہے یا اپنے ڈرون 100 فیصد ٹارگٹ کی صورت میں پاکستان کے مشورے سے اپریٹ کرے۔ ایسا ہو تو وزیراعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کو ایسے مایوس کن اور کنفیوژڈ بیان نہ دینا پڑیں کہ ڈرون حملوں پر امریکی دباﺅ تو مسترد کرتے ہیں لیکن انہیں گرانے کا فیصلہ کرنیوالے حالات نہیں ہیں۔
القاعدہ کی طاقت کو کچلنے کیلئے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا‘ امریکہ کی نظر میں اگر وہ کہیں موجود ہیں تو اسے پاکستان کے تعاون کے بغیر مکمل شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا جس کا اعتراف جنرل ڈیمپسی نے بھی کیا ہے۔ اس کیلئے حالات کو سازگار بنانا امریکہ کی ذمہ داری ہے‘ وہ پاکستان پر اعتماد اور اسکی مشکلات کا ادراک کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً مضبوط پاکستان ہی امریکہ کے مفاد میں ہے‘ پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے امریکہ کو اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔ صرف جنگ میں پاکستان کے نقصانات کا معمولی معاوضہ ادا کرنے سے پاکستان مضبوط نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے خارجہ امور بھی امریکی تعاون کے متقاضی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ خطے میں بھارت ہی پاکستان کا بڑا دشمن ہے‘ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی کی صورت میں امریکہ کی بھارت پر نوازشات ہیں جبکہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام محدود کرنے کا درس دیتے ہوئے اس کیلئے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی شجرِممنوعہ قرار دے دی گئی ہے۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن بھارت کو ایشیا کی ابھرتی ہوئی طاقت قرار دیکر اسکی اہمیت بڑھا رہے ہیں۔ کیا امریکہ کی ایسی سوچ‘ اقدامات اور بیانات سے اسکے پاکستان کے ساتھ مضبوط اور بااعتماد تعلقات قائم رہ سکتے ہیں؟ امریکہ کو افغان جنگ کے خاتمے تک پاکستان کی ضرورت ہے‘ اس کا امریکہ نے ادراک نہ کیا تو پاکستان مایوس ہو کر جنگ سے الگ ہوا تو امریکہ مکمل شکست سے دوچار ہو جائیگا‘کیا امریکہ اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟