• news

نبوت اور عبدیت

نبوت اور عبدیت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام صفا پہاڑی پر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے جبرائیل !اس ذات کی قسم جس نے تمہیں حق دے کر بھیجا ہے،شام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل وعیال کے پاس نہ ایک پھٹکی آٹا تھا اورنہ ایک مٹھی ستو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ابھی پوری ہوئی نہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان سے دھماکہ کی ایسی زور دار آواز سنی ،جس سے آپ پراللہ رب العزت کے رعب کی ایک کیفیت طاری ہوئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا :کیا اللہ نے قیامت قائم ہونے کاحکم دے دیا ہے؟حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنتے ہی اسرافیل علیہ السلام کو حکم دیا اوروہ اترکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں چنانچہ حضرت اسرافیل نے خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کہی وہ اللہ تعالیٰ نے سنی اوراللہ نے مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے اورمجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پیش کروں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں تو میں تہامہ کے پہاڑوں کو زمرد‘یا قوت ‘سونے اورچاندی کا بنادوں اور یہ پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا کریں۔اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہت والی نبوت چاہتے ہیں یا بندگی والی۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تواضع اختیار کرنے کا اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا نہیں میں بندگی والی نبوت چاہتا ہوں۔(طبرانی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کو بیان کرکے آخر میں فرماتی ہیں کہ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا بلکہ فرماتے تھے کہ میں ایسے کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتا ہے اورایسے بیٹھتا ہوں جیسے غلام بیٹھتا ہے۔(ہیثمی )
حضرت ابو غالب رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میںنے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ہمیں ایسی حدیث سنائیں جو آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔فرمایاحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری گفتگو قرآن (کے مطابق )ہوتی تھی آپ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے تھے اوربیان مختصر کرتے تھے نماز لمبی پڑھتے تھے۔آپ تیوری نہیں چڑھاتے تھے اوراس سے تکبر محسوس نہیں فرماتے تھے کہ مسکین اورکمزور آدمی کے ساتھ جاکر اس کی ضرورت پوری کرکے ہی آئیں۔(طبرانی)

ای پیپر-دی نیشن