امن عمل کی سربراہی افغانستان کے پاس ہونی چاہئے ‘ مدد دینے کو تیار ہیں : سرتاج عزیز
کابل (نوائے وقت نیوز+ رائٹر+ اے ایف پی+ ایجنسیاں) پاکستان نے افغانستان کو طالبان کیساتھ مفاہمت کے عمل میں تعاون یقین دلاتے ہوئے واضح کیا ہے وہ مفاہمتی عمل میں تعاون ضرورکریگا مگر اسکی کامیابی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ امن عمل کی سربراہی کابل حکومت کے پاس ہونی چاہئے۔ خطے کے دیگر ممالک بھی افغانستان میں مداخلت یا کسی ایک گروپ کی حمایت کی پالیسی اختیار نہ کریں۔ اس عمل میں کسی معاہدے پر دونوں افغان فریقوں نے ہی پہنچنا ہے۔ پاکستان امن معاہدے میں دیدد دینے کو تیار ہے۔ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی جائیگی نہ کوئی حل مسلط کیا جائیگا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں وہی کردار ادا کرینگے جس کی افغان حکومت کی جانب سے درخواست کی جائیگی۔ خارجہ امور اورقومی سلامتی کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کابل میں افغان وزیرخارجہ ڈاکٹر زلمے رسول سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کیساتھ تعلقات کو وسعت چاہتی ہے۔ پاکستان سے امن، دوستی، تعاون اور نیک خواہشات کا پیغام لیکر آیا ہوں۔ افغانستان میں استحکام پورے خطے کے مفادمیں ہے، وہاں عدم استحکام سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔ طالبان سے امن مذاکرات افغان قیادت میں ہوں گے، اگراس ضمن میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوئی تو ہرممکن تعاون کریں گے، پاکستان امن معاہدے میں مدد دے سکتا ہے لیکن کوئی حل مسلط نہیں کریگا نہ ہی اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں، امن عمل میں کسی معاہدے پر دونوں افغان فریقوں نے ہی پہنچنا ہے۔ افغانیوں کو افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ وزیراعظم نوازشریف کے حالیہ بیان کا ذکر کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا پاکستان افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی جنگ زدہ ملک میں کسی گروپ کی حمایت کرتا ہے، ہم افغانستان کے ساتھ قریبی سیاسی اور تجارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان طالبان کو کنٹرول نہیں کر رہا، ہم افغانستان میں امن واستحکام کے لئے مخلصانہ کوششیں کررہے ہیں۔ افغان حکومت کی درخواست پر 26 طالبان قیدیوں کو رہا کیاگیا ہے، آئندہ بھی پاکستان کی طرف سے کوئی مدد درکارہوئی تو فراہم کی جائے گی۔ ہم افغانستان میں امن کیلئے ہرممکن اقدام کریں گے۔ حکومت پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارت میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی خواہشمند ہے، باہمی تجارت میں اضافے سے دونوں ملکوں کی معیشت مضبوط اورعوام خوشحال ہوں گے۔ افغان وزیرخارجہ زلمے رسول نے کہا امید ہے پاکستان میں نئی حکومت کے قیام اورسرتاج عزیز کے دورے سے دونوںملکوںکے تعلقات میں نیا باب کھلے گا، ماضی میں دونوں ملکوںکے درمیان بہتر تعلقات کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ افغان وزیرخارجہ نے افغانستان میں امن عمل کے لئے پاکستان کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ دیانتدارانہ بنیادوں پر تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی امید کرتے ہیں۔ دونوںممالک کے درمیان تعاون افغانستان میں امن کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے امیدظاہرکی کہ پاکستان کی امن عمل کیلئے کوششیں افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار کریں گی۔ اس سے پہلے سرتاج عزیز نے افغان وزیرخارجہ ڈاکٹر زلمے رسول سے ملاقات میں پاکستان افغان تعلقات، مفاہمی عمل سمیت دیگر معاملات پرتبادلہ خیال کیا۔سرتاج عزیز نے افغان وزیر تجارت انوار الحق ہادی سے بھی ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور اورپاک افغان تجارتی تعلقات سمیت دہلی گیس منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سرتاج عزیز نے کہا پاکستان افغان طالبان سے مذاکرات کی بحالی میں مددگار مگر طالبان سے امن مذاکرات افغانستان ہی کریگا، پاکستان امن مذاکرات کی بحالی کیلئے کوششیں کررہا ہے۔ طالبان سے امن مذاکرات کی بحالی میں پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی تو مدد کریں گے، مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے امن اور تعاون کا پیغام لیکر کابل آیا ہوں، تجارت میں اضافہ دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کیساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا میں افغانستان کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی کا پیغام لیکر آیا ہوں، میرے دورے کا بڑا مقصد وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے صدر حامد کرزئی کو دورہ¿ پاکستان کی باضابطہ دعوت دینا ہے۔ ہم افغانستان کے لئے دو اہم سنگ میل حاصل کرنے کے لئے اس کی کامیابیوں کے خواہاں ہیں۔ پرامن، مستحکم اور متحدہ افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔ دونوں ممالک میں قریبی دوستانہ تعلقات ضروری ہیں۔ پرامن مستحکم اور متحد افغانستان پاکستان کے حق میں ہے افغانستان میں امن و استحکام کے بغیر پاکستان میں امن و سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس سے قبل سرتاج عزیز وزیراعظم نوازشریف کا پیغام لیکر افغانستان کے ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔ سرتاج عزیز کے ساتھ سیکرٹری خارجہ اور دیگرحکام بھی موجود ہیں۔
سرتاج عزیز/ پریس کانفرنس
کابل(نوائے وقت رپورٹ+اے این این )وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز نے افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرکے انہیں وزیراعظم نوازشریف کا خصوصی پیغام پہنچایا انہیںدورہ پاکستان کی باضابطہ دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی۔ انہوں نے پاکستان کی نئی حکومت کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اورافغان مصالحتی عمل سے متعلق حکمت عملی اور ریڈ لائنز سے آگاہ کیا۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سرتاج عزیز نے وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر کابل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی اس موقع پر سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی ان کے ساتھ تھے، ملاقات میں دوطرفہ تعلقات ، باہمی دلچسپی کے امور اورخطے میں امن واستحکام اوربالخصوص افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیاگیا، ملاقات خوشگوارماحول میں ہوئی جس میں افغانستان کی تعمیر نو اور دونوںملکوں کے مابین تجارتی معاہدوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ، خطے میں امن واستحکام اورتوانائی کے منصوبوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سرتاج عزیر نے افغان صدرحامد کرزئی کو وزیراعظم نوازشریف کا پیغام پہنچایا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا نہ ہی ہم اپنی سرزمین افغانستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے مقاصد کے لئے استعمال ہونے دینگے، پڑوسی ممالک کی جانب سے بھی مداخلت برداشت کی جائے گی اور نہ ہی کسی ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونی چاہیے ، پاکستان کی نئی حکومت عدم مداخلت کی پالیسی کو فروغ دے گی ، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان وہی کرداراداکرے گا جس کی افغان حکومت کی جانب سے درخواست کی جائے گی ، ہم صرف سہولت کار کاکرداراداکرنے کے لئے تیار ہیں، پیغام میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں وسیع تر قومی اتفاق رائے کا حامی ہے ہم افغانستان میں کسی گروپ کی حمایت کرےں گے نہ ہی کوئی گروپ ہمارا پسندیدہ ہے افغانستان میں حکومت ، عوام اور تمام گروپ ہمارے دوست ہیں اگر ماضی میں کسی پاکستانی حکومت نے افغانستان میں مداخلت کی پالیسی اختیارکی ہے تو اس نے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے ، ہم دوستی کی پالیسی آگے بڑھائیں گے، افغانستان میں امن عمل سے متعلق افغان حکومت اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق جوپالیسی اختیارکرے گا پاکستان اسی کے مطابق اپنا کردارادا کرے گا ،ہم پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتے ہیں ، مستقبل میں بھی ہمارا فوکس امن واستحکام کی بنیاد پر رہے گا،پاکستان سے افغانستان سے تجارت کوبھی فروغ دینا چاہتا ہے۔ باہمی تجارت میں اضافے سے نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشت مضبوط ہو گی بلکہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ اور عوام خوشحال ہوں گے ، پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کو تعمیر نو کے عمل میں بھرپور حمایت کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور وزیراعظم نوازشریف نے اس امید کا اظہارکیا کہ افغان حکومت خطے میں امن و استحکام اور دوطرفہ تعلقات میں اضافے کے لئے مثبت کردارادا کرے گی اور الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے گا ، بلیم گیم کسی کے مفاد میں نہیں۔ سرتاج عزیز نے پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف حکمت عملی اور ریڈ لائنز سے بھی افغان حکومت کو آگاہ کیا۔ پاکستان افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے صدر حامد کرزئی کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ پاکستان کی بھی دعوت دی جو افغان صدر حامد کرزئی نے قبول کرلی تاہم اس دورے کی تاریخ وقت کا تعین دونوں ملک سفارتی سطح پر کریں گے۔ سرتاج عزیز نے نوازشریف کی جانب سے افغان حکام اورحکومت کے لئے نیک خواہشات کاپیغام پہنچایا۔افغان صدرنے کہاکہ افغانستان پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کوقدرکی نگاہ سے دیکھتاہے دونوں ملکوں کاامن ایک دوسرے سے وابستہ ہے امیدہے کہ پاکستان افغانستان میں پائیدارامن کےلئے کردار جاری رکھے گا۔سرتاج عزیز نے کابل پہنچنے کے بعد افغان وزیر خارجہ زلمے رسول سے ملاقات کی جس میں اہم دو طرفہ اور خطے کی صورتحال سمیت اہم امور پر گفتگو کی۔ سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ دورہ کابل سے قبل میڈیا سے گفتگو میں سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات کا خواہاں ہے اور افغانستا ن میں امن واستحکام کے بارے میں ہمارے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ سرتاج عزیز نے کہا میں افغان رہنماﺅں کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتربنانے کے بارے میں بات چیت کروں گا۔ افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ پاکستان کیلئے ایجنڈا تیار کیا جائیگا۔ ”ہماری پالیسی ہے کہ افغانستان میں کوئی مداخلت نہیں کرنی ہے نہ ہی کسی ایک مخصوص دھڑے کی حمایت کرنی ہے، امید کرتا ہوں کہ ہم اس پالیسی کا نفاذ ممکن بنا سکے گے“۔ انہوں نے کہا کہ وہ کابل میں اپنی ملاقاتوں میں بھی افغان حکام کو اس پالیسی کے تخلیقی عمل کو وضع کرنے کی کوشش کریں گے۔افغان وزیر خارجہ زلمے رسول زاد نے کہا کہ امن مذاکرات افغان قیادت کی نگرانی میں ہونے چاہئیں افغانستان کے آئین کا احترام ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے افغانستان کی قیادت اور عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان افغان مفاہمتی عمل کی کامیابی چاہتا ہے عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہیں گے۔ اس امر کا اظہار انہوں نے افغان صدر کے نام اپنے خصوصی پیغام میں کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم نے افغان عوام کی خواہش کے مطابق مفاہمتی عمل اور تمام افغان دھڑوں کو قومی دھارے میں لانے کی حمایت کی ہے۔پاکستانی قیادت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے پاکستان کے لئے کوئی بھی افغان گروپ پسندیدہ نہیں امن و سلامتی تعمیر نو اور امن عمل کے سوا پاکستان کے افغانستان کے حوالے سے کوئی عزائم نہیں ہیں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوئی سٹرٹیجک گہرائی نہیں، ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نوازشرےف نے پیغام میں واضح کیا ہے کہ ہم افغانستان کو آزاد اور خود مختار ہمسایہ ملک سمجھتے ہیں اور اس پالیسی پر کاربند رہیں گے اور افغان عوام کی منتخب قیادت سے تعلقات کو فروغ دیا جائیگا، وزیر اعظم نے افغان صدر حامد کرزئی کو پہلی فرصت میں دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ رائٹر کے مطابق سرتاج عزیز نے افغانستان کے ”بریک اپ“ یا طالبان سے پاور شیئرنگ کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے کسی منصوبہ سے انکار کیا۔ انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے مذاکرات میں بگاڑ پیدا ہونے کے حوالے سے اس امر کا اظہار کیا کہ پاکستان انہیں دوبارہ شروع کرانے کے لئے ڈپلومیسی کا دوبارہ آغاز کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ افغانستان میں امن سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کا امن اور خوشحالی وابستہ ہے۔ وزیراعظم نے دفتر خارجہ کے دورے کے موقع پر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایک انٹرویو میں دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کا امن اور خوشحالی وابستہ ہے۔ وزیراعظم نے دفتر خارجہ کے دورے کے موقع پر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سرتاج عزیز/کرزئی
امن عمل کی سربراہی افغانستان کے پاس ہونی چاہئے ‘ مدد دینے کو تیار ہیں : سرتاج عزیز
کابل (نوائے وقت نیوز+ رائٹر+ اے ایف پی+ ایجنسیاں) پاکستان نے افغانستان کو طالبان کیساتھ مفاہمت کے عمل میں تعاون یقین دلاتے ہوئے واضح کیا ہے وہ مفاہمتی عمل میں تعاون ضرورکریگا مگر اسکی کامیابی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ امن عمل کی سربراہی کابل حکومت کے پاس ہونی چاہئے۔ خطے کے دیگر ممالک بھی افغانستان میں مداخلت یا کسی ایک گروپ کی حمایت کی پالیسی اختیار نہ کریں۔ اس عمل میں کسی معاہدے پر دونوں افغان فریقوں نے ہی پہنچنا ہے۔ پاکستان امن معاہدے میں دیدد دینے کو تیار ہے۔ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی جائیگی نہ کوئی حل مسلط کیا جائیگا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں وہی کردار ادا کرینگے جس کی افغان حکومت کی جانب سے درخواست کی جائیگی۔ خارجہ امور اورقومی سلامتی کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کابل میں افغان وزیرخارجہ ڈاکٹر زلمے رسول سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کیساتھ تعلقات کو وسعت چاہتی ہے۔ پاکستان سے امن، دوستی، تعاون اور نیک خواہشات کا پیغام لیکر آیا ہوں۔ افغانستان میں استحکام پورے خطے کے مفادمیں ہے، وہاں عدم استحکام سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔ طالبان سے امن مذاکرات افغان قیادت میں ہوں گے، اگراس ضمن میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوئی تو ہرممکن تعاون کریں گے، پاکستان امن معاہدے میں مدد دے سکتا ہے لیکن کوئی حل مسلط نہیں کریگا نہ ہی اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں، امن عمل میں کسی معاہدے پر دونوں افغان فریقوں نے ہی پہنچنا ہے۔ افغانیوں کو افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ وزیراعظم نوازشریف کے حالیہ بیان کا ذکر کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا پاکستان افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی جنگ زدہ ملک میں کسی گروپ کی حمایت کرتا ہے، ہم افغانستان کے ساتھ قریبی سیاسی اور تجارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان طالبان کو کنٹرول نہیں کر رہا، ہم افغانستان میں امن واستحکام کے لئے مخلصانہ کوششیں کررہے ہیں۔ افغان حکومت کی درخواست پر 26 طالبان قیدیوں کو رہا کیاگیا ہے، آئندہ بھی پاکستان کی طرف سے کوئی مدد درکارہوئی تو فراہم کی جائے گی۔ ہم افغانستان میں امن کیلئے ہرممکن اقدام کریں گے۔ حکومت پاکستان افغانستان کے ساتھ تجارت میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی خواہشمند ہے، باہمی تجارت میں اضافے سے دونوں ملکوں کی معیشت مضبوط اورعوام خوشحال ہوں گے۔ افغان وزیرخارجہ زلمے رسول نے کہا امید ہے پاکستان میں نئی حکومت کے قیام اورسرتاج عزیز کے دورے سے دونوںملکوںکے تعلقات میں نیا باب کھلے گا، ماضی میں دونوں ملکوںکے درمیان بہتر تعلقات کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ افغان وزیرخارجہ نے افغانستان میں امن عمل کے لئے پاکستان کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ دیانتدارانہ بنیادوں پر تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی امید کرتے ہیں۔ دونوںممالک کے درمیان تعاون افغانستان میں امن کی بحالی میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے امیدظاہرکی کہ پاکستان کی امن عمل کیلئے کوششیں افغانستان میں پائیدار امن کی راہ ہموار کریں گی۔ اس سے پہلے سرتاج عزیز نے افغان وزیرخارجہ ڈاکٹر زلمے رسول سے ملاقات میں پاکستان افغان تعلقات، مفاہمی عمل سمیت دیگر معاملات پرتبادلہ خیال کیا۔سرتاج عزیز نے افغان وزیر تجارت انوار الحق ہادی سے بھی ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور اورپاک افغان تجارتی تعلقات سمیت دہلی گیس منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سرتاج عزیز نے کہا پاکستان افغان طالبان سے مذاکرات کی بحالی میں مددگار مگر طالبان سے امن مذاکرات افغانستان ہی کریگا، پاکستان امن مذاکرات کی بحالی کیلئے کوششیں کررہا ہے۔ طالبان سے امن مذاکرات کی بحالی میں پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی تو مدد کریں گے، مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے امن اور تعاون کا پیغام لیکر کابل آیا ہوں، تجارت میں اضافہ دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کیساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا میں افغانستان کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی کا پیغام لیکر آیا ہوں، میرے دورے کا بڑا مقصد وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے صدر حامد کرزئی کو دورہ¿ پاکستان کی باضابطہ دعوت دینا ہے۔ ہم افغانستان کے لئے دو اہم سنگ میل حاصل کرنے کے لئے اس کی کامیابیوں کے خواہاں ہیں۔ پرامن، مستحکم اور متحدہ افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔ دونوں ممالک میں قریبی دوستانہ تعلقات ضروری ہیں۔ پرامن مستحکم اور متحد افغانستان پاکستان کے حق میں ہے افغانستان میں امن و استحکام کے بغیر پاکستان میں امن و سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس سے قبل سرتاج عزیز وزیراعظم نوازشریف کا پیغام لیکر افغانستان کے ایک روزہ دورے پر کابل پہنچے۔ سرتاج عزیز کے ساتھ سیکرٹری خارجہ اور دیگرحکام بھی موجود ہیں۔
سرتاج عزیز/ پریس کانفرنس
کابل(نوائے وقت رپورٹ+اے این این )وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز نے افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرکے انہیں وزیراعظم نوازشریف کا خصوصی پیغام پہنچایا انہیںدورہ پاکستان کی باضابطہ دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی۔ انہوں نے پاکستان کی نئی حکومت کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اورافغان مصالحتی عمل سے متعلق حکمت عملی اور ریڈ لائنز سے آگاہ کیا۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سرتاج عزیز نے وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر کابل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی اس موقع پر سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی ان کے ساتھ تھے، ملاقات میں دوطرفہ تعلقات ، باہمی دلچسپی کے امور اورخطے میں امن واستحکام اوربالخصوص افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیاگیا، ملاقات خوشگوارماحول میں ہوئی جس میں افغانستان کی تعمیر نو اور دونوںملکوں کے مابین تجارتی معاہدوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ، خطے میں امن واستحکام اورتوانائی کے منصوبوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سرتاج عزیر نے افغان صدرحامد کرزئی کو وزیراعظم نوازشریف کا پیغام پہنچایا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا نہ ہی ہم اپنی سرزمین افغانستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے مقاصد کے لئے استعمال ہونے دینگے، پڑوسی ممالک کی جانب سے بھی مداخلت برداشت کی جائے گی اور نہ ہی کسی ملک کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونی چاہیے ، پاکستان کی نئی حکومت عدم مداخلت کی پالیسی کو فروغ دے گی ، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان وہی کرداراداکرے گا جس کی افغان حکومت کی جانب سے درخواست کی جائے گی ، ہم صرف سہولت کار کاکرداراداکرنے کے لئے تیار ہیں، پیغام میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں وسیع تر قومی اتفاق رائے کا حامی ہے ہم افغانستان میں کسی گروپ کی حمایت کرےں گے نہ ہی کوئی گروپ ہمارا پسندیدہ ہے افغانستان میں حکومت ، عوام اور تمام گروپ ہمارے دوست ہیں اگر ماضی میں کسی پاکستانی حکومت نے افغانستان میں مداخلت کی پالیسی اختیارکی ہے تو اس نے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے ، ہم دوستی کی پالیسی آگے بڑھائیں گے، افغانستان میں امن عمل سے متعلق افغان حکومت اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق جوپالیسی اختیارکرے گا پاکستان اسی کے مطابق اپنا کردارادا کرے گا ،ہم پرامن اور مستحکم افغانستان چاہتے ہیں ، مستقبل میں بھی ہمارا فوکس امن واستحکام کی بنیاد پر رہے گا،پاکستان سے افغانستان سے تجارت کوبھی فروغ دینا چاہتا ہے۔ باہمی تجارت میں اضافے سے نہ صرف دونوں ملکوں کی معیشت مضبوط ہو گی بلکہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ اور عوام خوشحال ہوں گے ، پاکستان کی جانب سے افغان حکومت کو تعمیر نو کے عمل میں بھرپور حمایت کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور وزیراعظم نوازشریف نے اس امید کا اظہارکیا کہ افغان حکومت خطے میں امن و استحکام اور دوطرفہ تعلقات میں اضافے کے لئے مثبت کردارادا کرے گی اور الزام تراشی کا سلسلہ بند کیا جائے گا ، بلیم گیم کسی کے مفاد میں نہیں۔ سرتاج عزیز نے پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف حکمت عملی اور ریڈ لائنز سے بھی افغان حکومت کو آگاہ کیا۔ پاکستان افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے صدر حامد کرزئی کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ پاکستان کی بھی دعوت دی جو افغان صدر حامد کرزئی نے قبول کرلی تاہم اس دورے کی تاریخ وقت کا تعین دونوں ملک سفارتی سطح پر کریں گے۔ سرتاج عزیز نے نوازشریف کی جانب سے افغان حکام اورحکومت کے لئے نیک خواہشات کاپیغام پہنچایا۔افغان صدرنے کہاکہ افغانستان پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کوقدرکی نگاہ سے دیکھتاہے دونوں ملکوں کاامن ایک دوسرے سے وابستہ ہے امیدہے کہ پاکستان افغانستان میں پائیدارامن کےلئے کردار جاری رکھے گا۔سرتاج عزیز نے کابل پہنچنے کے بعد افغان وزیر خارجہ زلمے رسول سے ملاقات کی جس میں اہم دو طرفہ اور خطے کی صورتحال سمیت اہم امور پر گفتگو کی۔ سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ دورہ کابل سے قبل میڈیا سے گفتگو میں سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات کا خواہاں ہے اور افغانستا ن میں امن واستحکام کے بارے میں ہمارے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ سرتاج عزیز نے کہا میں افغان رہنماﺅں کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتربنانے کے بارے میں بات چیت کروں گا۔ افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ پاکستان کیلئے ایجنڈا تیار کیا جائیگا۔ ”ہماری پالیسی ہے کہ افغانستان میں کوئی مداخلت نہیں کرنی ہے نہ ہی کسی ایک مخصوص دھڑے کی حمایت کرنی ہے، امید کرتا ہوں کہ ہم اس پالیسی کا نفاذ ممکن بنا سکے گے“۔ انہوں نے کہا کہ وہ کابل میں اپنی ملاقاتوں میں بھی افغان حکام کو اس پالیسی کے تخلیقی عمل کو وضع کرنے کی کوشش کریں گے۔افغان وزیر خارجہ زلمے رسول زاد نے کہا کہ امن مذاکرات افغان قیادت کی نگرانی میں ہونے چاہئیں افغانستان کے آئین کا احترام ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے افغانستان کی قیادت اور عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان افغان مفاہمتی عمل کی کامیابی چاہتا ہے عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہیں گے۔ اس امر کا اظہار انہوں نے افغان صدر کے نام اپنے خصوصی پیغام میں کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم نے افغان عوام کی خواہش کے مطابق مفاہمتی عمل اور تمام افغان دھڑوں کو قومی دھارے میں لانے کی حمایت کی ہے۔پاکستانی قیادت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے پاکستان کے لئے کوئی بھی افغان گروپ پسندیدہ نہیں امن و سلامتی تعمیر نو اور امن عمل کے سوا پاکستان کے افغانستان کے حوالے سے کوئی عزائم نہیں ہیں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوئی سٹرٹیجک گہرائی نہیں، ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نوازشرےف نے پیغام میں واضح کیا ہے کہ ہم افغانستان کو آزاد اور خود مختار ہمسایہ ملک سمجھتے ہیں اور اس پالیسی پر کاربند رہیں گے اور افغان عوام کی منتخب قیادت سے تعلقات کو فروغ دیا جائیگا، وزیر اعظم نے افغان صدر حامد کرزئی کو پہلی فرصت میں دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ رائٹر کے مطابق سرتاج عزیز نے افغانستان کے ”بریک اپ“ یا طالبان سے پاور شیئرنگ کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے کسی منصوبہ سے انکار کیا۔ انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے مذاکرات میں بگاڑ پیدا ہونے کے حوالے سے اس امر کا اظہار کیا کہ پاکستان انہیں دوبارہ شروع کرانے کے لئے ڈپلومیسی کا دوبارہ آغاز کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ افغانستان میں امن سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کا امن اور خوشحالی وابستہ ہے۔ وزیراعظم نے دفتر خارجہ کے دورے کے موقع پر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایک انٹرویو میں دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کا امن اور خوشحالی وابستہ ہے۔ وزیراعظم نے دفتر خارجہ کے دورے کے موقع پر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔