• news

بنگلہ دیش برادر مسلمان ملک ہے مگر؟

بنگلہ دیش برادر مسلمان ملک ہے مگر؟

ہندوستان کی تقسیم اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے میں ایک واضح فرق ہے۔ بھارت اور پاکستان کی دشمنی پانی ہی نہیں دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ حکام بھی منافقت کو مفاہمت کا نام دینے کے دھوکے میں مبتلا ہیں۔ بھارت کسی طور پاکستان کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے مگر مشرقی پاکستان پر بھارت کی چڑھائی کے باوجود ہم نے بنگلہ دیش کو دل سے قبول کر لیا ہے۔ اسے اپنا برادر ملک بنا لیا ہے ہمیں یہ دکھ کبھی نہیں جائے گا کہ بھارت کی سازش اور فوجی مداخلت سے یہ سانحہ ہوا۔ بھارت کسی طور کبھی بھی بنگلہ دیش کے لئے دوستی نہیں رکھے گا۔ وہ اپنے کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ دشمنی سے باز نہیں آیا سب کو اپنے تھلے لگا کے رکھنا چاہتا ہے۔ محبت اور یگانگت کے بغیر خطے کا سردار بننا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش کو بھارت کی سازشوں سے باخبر ہونا چاہیے بنگلہ دیش کا قیام بھی ایک سازش کا نتیجہ ہے۔
اس بات کو 42 برس گزر گئے مگر ابھی تک بھارت کی سازشیں جاری ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کو سارے خاندان سمیت قتل کرنے میں بھی بھارت کی سازش چھپی ہوئی ہے۔ اب اتنے برس بعد پھر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان خواہ مخواہ کی مخاصمت پیدا کرنے کی کوشش انتہائی مکروہ اقدام ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے معاملات کو زندہ کرنا اور ایک تنازعہ کھڑا کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
اتنا عرصہ بنگلہ دیش میں رہنے والے بنگلہ دیشی ہیں۔ انہوں نے نئے ملک کو قبول کیا ہے۔ یہ پروفیسر اعظم صاحب اب مشرقی پاکستان کے امیر جماعت اسلامی نہیں ہیں اب وہ بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمان اکثریت میں ہیں وہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ملک ہے جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں یہ سراسر زیادتی ہے کہ تب پاکستان کے لئے محبت رکھنے والوں کو سزا دی جائے۔ محترمہ حسینہ واجد کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ تب مکتی باہنی نے تو ظلم ڈھائے، وہ بہت زیادہ ہیں ان کا حساب کس سے لیا جائے گا۔ مکتی باہنی تو بنائی ہی بھارت نے تھی جسے تربیت بھی بھارت سے ملتی تھی۔ یہ بے انصافی کی انتہا ہے مجھے صرف یہ بتایا جائے کہ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان کو قتل کرنے والے کون تھے ۔ کیا انہوں نے ان سے بدلہ لے لیا ہے ان میں بنگلہ دیش کی اپنی فوج کے علاوہ کوئی اور آدمی نہ تھا 42 سال خیال نہ آیا تو اب یہ کس کی شرارت ہے۔ یہ کیا عدالت ہے جو 90 سال کے بوڑھے ضعیف کو 90 سال کی سزائے قید دیتی ہے یہ مضحکہ خیز ہے بلکہ معنی خیز ہے۔ یہ سزا پانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں۔ یہ سزا دینے والوں کے خلاف ایک محاذ تیار کیا جا رہا ہے مجھے یقین ہے کہ محترمہ خالدہ ضیاءان سزاو¿ں کی حمایت نہیں کرے گی۔ مجھے افسوس پاکستان کی وزارت خارجہ پر ہے جس نے بڑی ڈھٹائی سے یہ بیان دیا ہے کہ یہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ ہے مگر یہ بھی توسوچیں کہ اس سزا کا تعلق پاکستان کے ساتھ ہے۔ تب پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کبھی مشرقی پاکستان تھا۔ شیخ مجیب الرحمن اور خود حسینہ واجد بھی مشرقی پاکستانی بلکہ پاکستانی تھیں۔ پاکستان بنایا ہی مشرقی پاکستان کے لوگوں نے تھا انہوں نے مادر ملت کو اپنے صوبے میں جتوایا تھا۔ اس نسبت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ اس لمحے کا معاملہ تھا۔ اس میں مختلف لوگوں کا مختلف نظریہ تھا نظریہ پاکستان تو ہمیشہ زندہ رہے گا بھارت کو یہ تکلیف چین نہیں لینے دیتی کہ اندراگاندھی نے خلیج بنگال میں نظریہ پاکستان کو ڈبو دیا تھا مگر محبت زندہ رہتی ہے۔ اسے دنیا کا کوئی سیلاب ڈبو نہیں سکتا۔ یہ بھارت کی چال ہے وہ اسلامی نظریات کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ کبھی اس میں کامیاب نہیں ہوگا بھارت میں 35 کروڑ مسلمان ہیں وہاں بھی ایک نیا ملک بن سکتا ہے۔ اس کا نام پاکستان نہ ہو مگر وہ مسلمانوں کا ملک ہوگا۔ بھارت کشمیر میں بہت بڑی فوج کے ساتھ بھی تحریک حریت کشمیر کو ختم نہیں کر سکا۔ بنگلہ دیش بنانے والا کشمیر کو الگ خطے کے طور پر کیوں نہیں دیکھ سکتا۔ اسے خالصتان کی تحریک کا بھی سامنا رہا۔ اب بھی بھارت کا ایک وسیع و عریض علاقہ ایسا ہے جہاں بھارت کا کنٹرول نہیں ہے۔ بھارت ایک خوف میں مبتلا ہو کر بنگلہ دیش کو اپنا حصہ نہیں بنا سکا۔ مگر اس ملک کو کمزور رکھنا چاہتا ہے مختلف غیر ضروری مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے وہ بنگلہ دیش کو اپنا محتاج رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے حکمران بھی اس سازش کو سمجھنا نہیں چاہتے۔
بھارت بوکھلا گیا ہے اور بنگلہ دیش کو بھی اپنی بوکھلاہٹ میں قید کرنا چاہتا ہے ورنہ کسی عدالت کی طرف سے 90 سال کے ایمان و یقین کی استقامت والے بوڑھے کو 90 سال کی سزا دینا عدالت کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ انہیں سوچ نہیں آتی کہ عمر قید کی سزا بھی بہت موثر ہے۔ دنیا والوں نے امریکہ کو بھی لعن طعن کیا تھا جب ایک امریکی جج نے بے گناہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کسی ثبوت کے بغیر 86 سال کی سزا دی۔ وہ اگرچہ پروفیسر اعظم صاحب سے عمر میں بہت چھوٹی ہوں گی مگر 86 سال تک زندہ رہنا ڈاکٹر عافیہ کے لئے بھی ممکن نہیں۔ یہ سزا پوری نہیں ہو گی اور یہ امریکی جج کے لئے ایک الزام ہوگا۔ پروفیسر اعظم کو 90 سال کی سزا دینے والے جج کا طبی معائنہ کرانا چاہیے یہ سزا جج نے نہیں دی۔ یہ سزا بھارت کے سازشیوں کے ذہن کی کارفرمائی ہے۔ یہ حسینہ واجد کے خلاف سازش ہے اور ہم ان کے بھی خیر خواہ ہیں۔ وہ بھارت پر بھروسہ نہ کریں۔ حیرت ہے کہ پاکستانی حکمران بھی بھارت کی بالادستی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔
یہ جو پاکستانی وزارت خارجہ کے اقتدار والوں کی ایماءپر بزدلی اور بے حمیتی کا مظاہرہ کیا ہے ٹرخا گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بیان بنگلہ دیش کو خوش کرنے کے لئے نہیں ہے۔ بھارت کو خوش کرنے کے لئے ہے۔ ایک کتاب بھٹو صاحب نے صدیق سالک سے لکھوائی تھی۔ وٹسن ٹو سرنڈر ہے اور یہ وٹنس ٹو بلنڈر ہے اس کا پتہ دیر سے پاکستان کو چلے گا۔ اس کا سارا تعلق بنگلہ دیش سے زیادہ فطری اور گہرا ہے، بھارت کا تعلق تو مصنوعی ہے اور منافقانہ ہے امریکہ اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے مخالف ہیں۔ مصر میں جو ہو رہا ہے وہاں بھی مسلمانوں کی جمہوریت کو جمہوریت کے چیمپئن امریکہ نے تار تار کیا ہے، غداروں کی فہرست میں زیادہ نام مسلمانوں کے ہیں دو ہی مسئلے دنیا میں ہیں فلسطین اور کشمیر۔ ایک کا تعلق اسرائیل سے اور دوسرے کا بھارت کے ساتھ ہے۔ امریکہ دونوں کے ساتھ ہے اسرائیل اور بھارت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میں محترم نوازشریف سے گزارش کرتاہوں کہ وہ کوئی دوستانہ سا بیان بنگلہ دیش میں ہونے والے ظلم کے خلاف دیں یہ سابق پاکستانیوں کا معاملہ ہے۔ یہ سزا دینے والوں کے بھی حق میں ہے کہ انہیں اس بے انصافی سے روکاجائے۔ میں شاندار اور بہادر صاحب ایمان بوڑھے پروفیسر اعظم کو سلام کرتا ہوں۔ نوازشریف بنگلہ دیش کے لئے بیان نہ دیں پروفیسر اعظم کے ساتھ ہمدردی کی بات کریں انہیں پاکستان کے لئے سزا وار ٹھہرایا جا رہا ہے اور نوازشریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں ۔

ای پیپر-دی نیشن