کالا باغ ڈیم‘ کیوں نہیں؟
ایک خبر ہے ”پشاور ہائی کورٹ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے درخواست دائر کر دی گئی درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم نہ بنا تو خیبر پی کے، کے جنوبی اضلاع ویران ہو جائیں گے نوشہرہ کے ڈوبنے کا مفروضہ دھوکا ہے۔“
قوم کی اس سے بڑھ کر اور بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اسے عوام دوست قیادت کی بجائے مصلحتوں کا شکار قیادتیں ملتی رہی ہیں۔ ان سطور میں کئی بار یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ کالا باغ ڈیم سے جو سب سے زیادہ سستی بجلی پیدا ہو گی اس میں سے پنجاب کو اسکے کوٹے کے مطابق حصہ ملے گا سب سے زیادہ فائدہ خیبر پی کے اور سندھ کو ہو گا پشاور ہائی کورٹ میں جو رٹ درخواست دائر کی گئی ہے یہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ڈیٹ لائن سے ہے بے شک کالا باغ ڈیم سے بہت زیادہ فائدہ اس صوبے کے جنوبی اضلاع کو ہو گا جن میں ڈیرہ اسماعیل خان‘ کرک‘ بنوں اور ٹانک کے علاقے شامل ہیں جن کی ایک تخمینہ کے مطابق 24 لاکھ ایکڑ سے زائد بنجر اراضی سیراب ہو گی۔ رٹ درخواست میں یہ بات بالکل درست کی گئی ہے کہ نوشہرہ شہر ڈوبنے کا مفروضہ محض دھوکا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر منگلا ڈیم سے صرف 35 کلو میٹر دور واقع شہر آج تک نہیں ڈوبے تو کالا باغ ڈیم سے 185 کلو میٹر دور نوشہرہ‘ مردان یا صوابی کیسے ڈوب جائینگے۔ وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ”میں پہلے بھی کالا باغ ڈیم کیخلاف تھا اب بھی ہوں“ یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ صوبے میں ضمنی انتخابات جیتنے کیلئے وہ اس جھوٹ کو اپنا رہے ہیں جسے اپنے مخصوص مقاصد کیلئے اے این پی نے پروپیگنڈہ کی بنیاد بنایا تھا حالانکہ انکی پارٹی تحریک انصاف سچ کی سیاست کے دعویٰ کےساتھ میدان سیاست میں آئی ہے۔ عوام خواہ کسی صوبے کے ہوں وہ سب کے سب کوئی فنی ماہرین نہیں ہیں وہ اگر اے این پی کے جھوٹے اور مسلسل پروپیگنڈہ نے ان تین شہروں کے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا ہے تو انہیں سچ بتا کر یہ خوف دور کیا جا سکتا ہے۔ ویسے یہ یہاں کے سب لوگوں کا خوف نہیں ہے اس تاثر کی سب سے بڑی نفی ان شہروں سے ان جماعتوں کو بڑی تعداد میں ووٹ ملنا ہے جو کالا باغ ڈیم کے مخالف نہیں ہیں۔
اسی طرح خیبر پی کے میں تو تین شہروں کی بات کی جاتی ہے سندھ میں تو پورے صوبے کے ڈوبنے کا شوشہ چھوڑا گیا ہے حالانکہ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعہ غریب سندھیوں بالخصوص ہاریوں کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے کالا باغ ڈیم بننے سے جو پانی سمندر کی نذر ہو کر ضائع ہو رہا ہے وہ سندھ میں بہترین آبپاشی کی ضرورت پوری کرے گا اب یہ پانی سمندر میں گرتا ہے یا چند وڈیروں کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے اور انکے ایکڑوں پر پھیلے فش فارموں کو ملتا ہے اور دس سے پندرہ ایکڑ اراضی رکھنے والے ہاری اس سے محروم ہیں۔ کالا باغ ڈیم بن گیا تو ربیع اور خریف کی فصلوں کیلئے ہاریوں کو بھی پانی مل سکے گا اور اپنی چھوٹی زمینیں خود کاشت کرکے معاشی لحاظ سے ترقی کر سکیں گے۔ اس لئے سندھ میں نوے فیصد سے زائد وڈیرے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے ارکان سندھی عوام کے حقیقی خیر خواہ ہوتے تو وہ سندھ میں چار چھوٹے ڈیموں کی حمایت کرتے جس سے ہر موسم کیلئے سندھ کے پاس پانی موجود رہتا۔ اب موو پاکستان کے محمد کامران نے بھی اس کے حق میں آواز اٹھائی ہے ان کا اپنے حصے کے چراغ جلانا لائق تحسین ہے بہتر یہ اپنی کوششوں کو اجتماعی شکل دیں اور کالا باغ ڈیم کے ایک نکاتی ایجنڈے پر مہم چلائیں عوام متوجہ ہوں گے تو پاکستانی میڈیا بھی توجہ دینے پر مجبور ہو گا جس کا اس حوالے سے سنگین غفلت شعار کردار ہے۔