فیصلے اورفصیلیں
ہمارے محترم دوست محمود اکرم انصاری غیر سیاسی آدمی ہیں مگر پاکستان کے لئے درد رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بگڑتے ہوئے حالات کو وطن دوستی کے جذبات میں دیکھتے ہوئے بے قرار ہوتے ہیں۔ اچانک انہوں نے کہا کہ آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے یہ ایک غلط فیصلے کی سزا ہے۔ نوازشریف کو اس کا ازالہ کرنا چاہیے اور دوبارہ ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ایک جونیئر جرنیل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے طور پر لائے اور اس نے پہلے دو تہائی اکثریت کی جمہوری حکومت کو معزول کیا اور پھر ملک کو عذابوں کے سپرد کر دیا، دہشت گردی ڈرون حملے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، لاقانونیت وغیرہ وغیرہ سب مصیبتیں اور مشکلات جنرل مشرف کی لائی ہوئی ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک بدکار اور سازشی آدمی کو کیوں پاک فوج کا سپہ سالار بنایا گیا۔ نوازشریف اگر سینئر موسٹ اچھے سپاہی جنرل علی قلی خان کو لے آتے تو وہ فوج کے معاملات کو ٹھیک کرتے اور امور حکومت جمہوری نظام کے مطابق چلتے۔ نوازشریف اپنے دل ہی میں تسلیم کریں کہ انہوں نے ایک غلط فیصلہ کیا تھا۔آج جنرل پرویز مشرف ملزم ہے نوازشریف پھر وزیراعظم ہیں، انہیں اب درست فیصلے کرنا چاہیں۔ قوم ابھی تک نئے زمانے کا انتظار کر رہی ہے انہیں ٹھیک فیصلے کر کے اس ملک کو طوفانوں سے نکال کر امید کے ساحلوں کی طرف لے کے جانا ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستی ان کے ساتھ تمام متنازعہ مسائل کے حل کے ساتھ منسوب کر کے آگے بڑھنا چاہیے ابھی تک کوئی ایسی پالیسی سامنے نہیں آئی جس سے کسی بہتری کی نشان دہی ہوتی ہو ابھی تو نئے آرمی چیف کے جنوئن انتخاب کا معاملہ بھی ہے۔ قوم نے انتخاب کے ذریعے انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ صحیح لوگوں کو منتخب کریں۔ محترم محمود اکرم انصاری کی یہ باتیں سن کر میں نے ایک امانت کے طور پر کالم میں لکھ دی ہیں۔ یہ میرے دل کی آواز بھی ہے اور میرا دل کہتا ہے کہ یہ پوری قوم کی آواز ہے۔ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی نے کہا ہے
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
............٭٭............
عدالتوں میں جنرل (ر) پرویز مشرف اور اربوں روپے کی کرپشن کے ملزم بہت بڑے ادارے کے سربراہ توقیر صادق کی تذلیل ہوتے ہوئے دیکھ کر عبرت آتی ہے۔ مگر یہ لوگ عبرت نہیں پکڑتے، خود عبرت کا سامان بلکہ سازوسامان بنجاتے ہیں، نااہل اور کرپٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنی گرفتاری کے خوف سے اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہیں دوسرے رینٹل وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی عدالت کو مطلوب ہیں دوسرے حکمرانوں کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔
............٭٭............
ایک نئے نجی ٹی وی چینل پر ایک اشتہار نما اعلان بار بار دکھایا جا رہا ہے یہ اینکر پرسن اعجاز حیدر کے پروگرام کی پبلسٹی کے لئے ہے، کئی لوگوں کے جملے سنائے جاتے ہیں ایک نامعلوم سے ساجد نامی نوجوان کا یہ جملہ بڑے فخریہ انداز میں کہتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ٹائی ٹینک جہاز ہے جو کسی وقت بھی ڈوب سکتا ہے اس کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ جیسے وہ اس جہاز پر سوار نہ ہو۔ ٹائی ٹینک ایک فلم ہے جس میں محبت کی جیت دکھائی گئی ہے۔ محبت نہیں مرتی تو ڈوب کیسے سکتی ہے محبت تو آنسوو¿ں میں بھی نہیں ڈوبتی محبت رونے والوں کے لئے ایک بیش بہا سہارا ہے۔ پاکستان محبتوں اور رحمتوں والے پیغمبر عالم کے نام پر بنایا گیا جو رحمت اللعالمین ہیں۔ میں اسے قریہ عشق محمد کہتا ہوں۔ ہر بار ہونے کے بعد بھی یہاں جذبے ولولے آرزوئیں زندہ ہیں۔ مجیب شامی نے کہا کہ پاکستان ٹائی ٹینک نہیں سمندر ہے، محبت قربانی اور یقین و ایمان کا سمندر۔ میری گزارش شیخ ریاض سے ہے کہ یہ جملہ فوری طور پر پروگرام کے پرومو (اشتہار نما اعلان) سے نکال دیا جائے۔ اعجاز حیدر بھی توجہ کریں۔ انہوں نے پچھلے دنوں کشمیر کے حوالے سے پروگرام کیا جس میں پاکستان اور حریت کشمیر کے لئے ان کی سنجیدگی اور دردمندی بہت اچھی لگی۔ یہ انداز طلعت حسین میں بھی نظر آتا ہے ۔ ہمارے میڈیا کو پاکستان کے لئے ایک نمایاں کمٹمنٹ کو اپنے دل کے ساتھ رکھنا چاہیے۔
............٭٭............
”آپ جناب سرکار“ فیڈریشن کے چیئرمین ڈاکٹر امیر شہزادہ نے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے ان کی ایک تصویر نوائے وقت میں شائع ہوئی ہے جس میں وہ وکٹری کا نشان بنائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں کرپشن کے مقدمات میں عدالتوں کی پیشی کے دوران لوگ وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ ڈاکٹر امبر بہت اچھے شاعر ہیں وہ اپنے آپ کو عالمی ضمیر فروش کہتے ہیں جو سیاستدانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے میرے خیال میں ڈاکٹر امبر کو بلا مقابلہ صدر منتخب کر لیا جائے۔ نوازشریف بھی ان کے لئے غور فرمائیں۔ وہ پیشہ ور سیاستدان نہیں اور یہی ان کی خوبی ہے۔ وہ پاکستان کے لئے دل سے سوچتے ہیں اور طنزیہ انداز میں رہنمائی کرتے ہیں۔
............٭٭............
برطانیہ میں لوگ جشن منا رہے ہیں۔ وہ پاکستان سے اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ برطانیہ میں ملک کا تیسرا ولی عہد شہزادہ پیدا ہوا ہے۔ ابھی تک پہلا ولی عہد شہزادہ بھی بادشاہ بننے کی خواہش میں بوڑھا ہوگیا ہے اس کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ سیاست میں وراثت ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں موروثی بادشاہت کا تصور عقیدے اور عقیدت کے امتزاج کے ساتھ موجود ہے میرا خیال ہے کہ اب پہلے ولی عہد شہزادہ چارلس کو بادشاہت کی امیدواری سے ریٹائر کر دینا چاہیے اس نے دلوں کی شہزادی لیڈی ڈیانا سے بھی بے وفائی کی ہے ۔ اس کی دوسری بیوی کو کبھی ولی عہد کی ماں ہونے کا اعزاز یا نصیب حاصل نہیں ہو سکے گا اور یہ اس کے لئے سب سے بڑی سزا ہے۔ یہ سزا شہزادہ چارلس کے لئے بھی ہے۔ ملکہ ایلزبتھ پڑدادی بن گئی ہے اس کے ارادوں اور خوش قسمتی سے لگتا ہے کہ وہ ”پڑ پڑدادی“ بھی بن کے رہے گی۔
ہسپتال کے سامنے دنیا بھر کا میڈیا اکٹھا ہو گیا تھا جیسے رپورٹنگ کے علاوہ خصوصی دعائیں کرنا بھی ان کی ڈیوٹی تھی، مجھے لگتا ہے کہ نومولود ولی عہد شہزادہ ہی اگلا بادشاہ ہوگا۔ شہزادہ چارلس اور شہزادہ ولیم بے چارے انتظار اور صبر کرتے کرتے فوت ہو جائیں گے۔ ملکہ عالیہ ابھی بہت دیر تک تخت چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔ اب بھی شہزادہ چارلس اپنی ماں سے بوڑھا لگتا ہے۔ میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ لیڈی ڈیانا کو مبارک باد دیتا ہوں کہ ولی عہد کی ماں سے اور ولی عہد کی دادی سے اس کےساتھ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں ایک ڈنر پر ملاقات ہوئی تھی وہ واقعی دلوں کی شہزادی تھی اس کا چہرہ میک اپ سے آلودہ نہ تھا جبکہ وہاں پاکستانی عورتیں سیدھی بیوٹی پارلر سے تقریب میں پہنچی تھیں پھر بھی وہ زیادہ شاندار اور گریس فل لگ رہی تھی۔ گریس فل ہونا خوبصورت ہونے سے آگے کی چیز ہے اس کے مرنے کا غم برطانیہ سے زیادہ پاکستان اور دنیا بھر میں منایا گیا۔
شہزادی تیرے ماتھے پر یہ زخم رہے گا
لیکن اس کو چومنے والا پھر نہیں ہوگا