مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قائداعظمؒ کی پالیسی کو اپنانا ہو گا: شیخ جمیل الرحمن
لاہور (ندیم بسرا) بھارت مذاکرات کی آڑ میں کشمیر کا مسئلہ پس پشت ڈالنا چاہتا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کی بجائے جہاد سے حل کر کروایا جائے۔ جہاد اس وقت ہی کامیاب ہوگا جب قوم، سول سوسائٹی، ادارے، حکومت اور فوج مجاہدین کا ساتھ دیں گے۔ کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے قائداعظمؒ کی پالیسی کو اپنانا ہوگا۔ اگر پاکستان نے بھارت کی عالمی سازشوں اور کشمیر میں ہونیوالی پیشقدمی کو نہ روکا تو آئندہ آنیوالے دنوں میں بھارت کی فوج کا مضبوط قلعہ مقبوضہ کشمیر ہو گا جس کا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑیگا۔ بھارت اسرائیل، افغانستان، امریکہ سے گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار کشمیری مجاہد، تحریک المجاہدین جموں اینڈ کشمیر کے سربراہ شیخ جمیل الرحمن نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں انہوں نے ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ ڈاکٹر مجید نظامی سے انکے دفتر میں ملاقات کی جس میں انہوں نے نوائے وقت کے کردار کو سراہا اور ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ ڈاکٹر مجید نظامی کی کشمیر اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے دوٹوک پالیسی کی تعریف کی۔ اس موقع پر جماعت اہلحدیث پاکستان اور تحریک المجاہدین جموں اینڈ کشمیر کے سیکرٹری اطلاعات شکیل الرحمن ناصر بھی موجود تھے۔ شیخ جمیل الرحمن نے مزید کہا کہ اس وقت حکومت پاکستان اور خصوصاً وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت سے مذاکرات سے قبل بھارت سے پہلے کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ تسلیم کروائے۔ اسکے بعد ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے۔ انہوں نے مزید کہا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں 1931ءوالی صورتحال ہے۔ پورے کشمیر میں کشمیری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ملک گیر ہڑتالیں ہورہی ہیں۔ بھارت نے کشمیر کے مسئلے کو متنازعہ تسلیم نہ کیا تو تحریک آزادی و کشمیر کو شدید جھٹکا لگے گا، مذاکرات بھی کامیاب نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں بسنے والے تمام ہندو ایک ذہن کے مالک ہیں، انکا یہی ذہن ہے کہ برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کی آڑ میں کشمیر کے مسئلے کو سبوتاژ کیا۔ بھارت سے مذاکرات میں پاکستان کا کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عام سوچنے والی بات ہے اور ہر فکر اور تدبر کا حامل شخص یہی سوچتا ہے کہ بھارت جو پاکستان کے دریائی پانیوں پر قبضہ کر رہا ہے اور کشمیر سے آنیوالے تمام دریاﺅں پر بند باندھ رہا ہے، وہ پاکستان کو بجلی فروخت کر رہا ہے، وہ پاکستان کا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان حکومت کو اس وقت اپنے نظریات کا دفاع کرنا ہوگا۔ قومیں تجارت میں خسارہ آنے سے نہیں ڈوبتیں، ہمیشہ وہی قومیں ڈوبتی ہیں جو اپنے نظریات کا دفاع نہیں کر سکتیں۔ قومیں نظریات کی بنیاد پر زندہ رہتی ہیں۔ پوری قوم، اداروں، سول سوسائٹی، حکومت اور خاص کر فوج کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر پر اب مذاکرات کا وقت گزر گیا، اب مسئلہ کشمیر جہاد سے حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے مسئلہ کشمیر پر یوٹرن لینے سے کشمیر کاز کو بہت نقصان پہنچا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بجائے اسے سجا کر بھارت کی پلیٹ پر رکھ دیا۔ موجودہ حکمران ماضی کے حکمرانوں سے سبق سیکھیں اور کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے کیلئے اپنی پالیسیاں تبدیل کریں کیونکہ بھارت لچک والے روئیے سے اپنی فوج کبھی کشمیر سے واپس نہیں بلائیگا۔