لاپتہ افراد کیس: پیشرفت نہیں ہو رہی‘ انتہائی اقدام پر مجبور کیا جا رہا ہے: چیف جسٹس‘ 10 روز میں پالیسی بنانے کا حکم
اسلام آباد(آئی اےن پی+اے پی اے) سپریم کورٹ نے حکومت کو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے واضح پالیسی بنا کر 10 روز میں عدالت میں پیش کر نے کا وقت دےدیا۔ بینچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ حل کر نے کے لیے حکومت کو موقع فراہم کر رہے ہیں اگر حکومت معاملہ حل نہ کر سکی تو عدالت حکم جاری کرے گی، حکومت کو لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے ایک واضح لائن کھینچنا ہو گی‘ پاک افواج کو بدنام کر نے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ خفیہ ایجنسیوں پر آئے روز لاپتہ افراد مقدمات کی سماعت کے دوران الزامات سامنے آتے ہیں جو ریاست کے خلاف کسی جرم میں ملوث ہو اس کے خلاف آئین کے مطابق کارروائی اور ٹرائل ہونا چاہیے۔ تاہم بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین عدالتوں میں دھکے کھا کر تھک چکے ہیں اب عدالتوں میں آنے جانے کے اخراجات برداشت کر نے کی سکت بھی نہیں رکھتے‘ پتہ نہیں ڈی جی کرائسس مینجمنٹ سیل کو نیند کس طرح آ جاتی ہے‘ عوام کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے حراستی مراکز میں رکھے گئے 5 سوسے زائد قیدیوں کا ٹرائل کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے لاپتہ فضل ربی کیس کی سماعت شروع کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ فضل ربی کے والد خانزادہ بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ فضل ربی خفیہ ایجنسیوں باہر کی حراستی مراکز میں ہے۔ لواحقین کو نہ تو کبھی کوئی دھمکی ملی نہ ان کے سامنے کوئی شخص فضل ربی کو اٹھا کر لے گیا صرف اس شخص کا شناختی کارڈ ایجنسیوں کے پاس سے برآمد ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو 10 روز کے اندر حکومت سے لاپتہ افراد کی بازیابی بارے میں پالیسی واضح کر نے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت عوام کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے چاروں صوبائی ہائیکورٹس اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد مقدمات کو حل کر نے بارے میں سمری تیار کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے، لواحقین کو ریلیف نہیں مل رہا اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر کوئی لاپتہ شخص بازیاب ہو جائے تو اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ حراستی مراکز میں رکھے گئے قیدیوں کو قانون کے تحت سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں ان کا ٹرائل نہیں کیا جا رہا کئی ثبوت بھی عدالت کے سامنے آ چکے ہیں جب کسی شخص کو ایجنسیوں کی جانب سے اٹھا لیا گیا۔ پاک افواج یا خفیہ ایجنسیوں کو بدنام کر نے کی اجازت کسی کو نہیں دے سکتے۔ حکومت کو ایک لکیر کھینچنا پڑے گی کہ لاپتہ افراد بازیاب کرانا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی ہم انتہائی اقدام کی طرف جائیں گے توکیا یہ اچھی بات ہوگی۔ ہمیں اس پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کسی شہری کی آزادی سلب کرنا سنگین معاملہ ہوتا ہے ¾حکومت وقت گزاری سے کام نہ لے اور ہمیں آخری حد تک جانے پر مجبور نہ کرے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ2005سے یہ معاملہ چل رہا ہے ہمیں سخت حکم دینے پر مجبور کیا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے اداروں میں سے کچھ لوگ غلط اقدام کر رہے ہوں، عدالت کو یہ بھی نہیں بتایا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے،کیا ہم سیکرٹری داخلہ کو بلالیں کہ وہ متعلقہ افراد کے نام لیں۔ عدالت کو بتایا جائے کہ لاپتہ افراد کو کون لے گیا؟چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ حکومت سے کچھ نہیں ہوسکتا تو ہم حکم جاری کر دیں گے، ہم حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں مگر عوام کو تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل کے اصرار پر کہا ہے کہ عدالت یہ فیصلہ دے دے گی کہ یونیفارم والے افراد پر مقدمہ آئین اور قانون کے تحت کہاں چل سکتا ہے اور کہاں نہیں۔ ایم آئی کے وکیل ابراہیم ستی نے مﺅقف اختیار کیا کہ یونیفارم پرسنز کو آئین اور قانون تحفظ دیتا ہے۔ ملٹری انٹیلی جنس کو بطور ادارہ تشویش ہے کہ میجر حیدر کا ٹرائل کہاں اور کس طرح ہو گا کیونکہ یونیفارم پہنے شخص کے خلاف ادارہ خود کارروائی کرتا ہے۔ ایم آئی کے وکیل نے اونچی آواز میں بات کرنا چاہی تو جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ یہ ایم آئی کا دفتر نہیں اپنی آواز دھیمی رکھیں۔ عدالت نے کہا کہ لاپتہ شخص کا لکڑی کا کاروبار تھا اور گمشدگی سے پہلے اس کی مبینہ طور پر میجر حیدر سے فون پر لڑائی بھی ہوئی۔ یہ ادارہ جاتی نہیں انفرادی معاملہ لگتا ہے، آپ اس حوالے سے ہدایات لے لیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بھی وفاق سے ہدایات لینے کا کہا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ میجر حیدر کے خلاف ایف آئی آر درج اور تفتیش کرنے والے ایس ایچ او تنویر وڑائچ کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش دوبارہ تنویر وڑائچ سے کرانے کی ہدایت کر دی۔