پاور پالیسی ٹرپ کر گئی
میں نے بڑی بے تابی سے اخبارات پر نظر ڈالی، دیکھنا چاہتا تھا کہ نوائے وقت کے تمام کالم نویسوں کو جس بریفنگ سے باہر رکھا گیا، اس میں ایسی راز کی کیا بات تھی۔دی نیشن کی ہیڈ لائن دیکھ کر میرا ہاسہ نکل گیا۔
Power policy trips for a week
اس حکومت میں آنے کے لئے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے پندرہ برس انتظار کیا، اسے چلانے کے لئے اس عرصے میں یہی طے کیا گیا کہ حکومت کیسے نہیں چلانی۔
دی نیشن کی ہیڈ لائن میں جس پاور پالیسی کا ذکر ہے ، اس سے مراد تو بجلی ہے لیکن لگتا ہے کہ ٹرپنگ کا روگ ہر پالیسی کو لاحق ہو گیا ہے۔اخبار نویس بڑے کایاں ہوتے ہیں۔ الفاظ سے کھیل کر سارا کھیل افشا کر دیتے ہیں۔
چلئے بجلی پالیسی کو لے لیجئے۔پندرہ سال تک اگر ن لیگ نے اس مسئلے پر کوئی پالیسی نہ بھی بنائی ہو تو حکومت جیتنے کے بعد سے یہی ایک مسئلہ اس کے زیر غور رہا ہے، ہر روز انرجی میٹنگ۔نواز شریف اور شہباز شریف نے تو حکومت کا بوجھ اٹھا ہی رکھا ہے، اسحا ق ڈار، احسن اقبال ، خوجہ آصف اور پرویز رشید بھی بجلی کے لئے یک سو دکھائی دیئے، حکومت سنبھالنے کے بعد بھی یہی مسئلہ چلتا رہا۔چین کے چھ روزہ دورے میںمیٹرو بس اور بلٹ ٹرین کے لئے چھ گھنٹے صرف کئے تو باقی سارا وقت بجلی کے لئے وقف کیا گیا۔واپسی پر پھر وہی صلاح مشورے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ بجلی ندارد اور بجلی پالیسی بھی بار بار ٹرپ کرتی رہی۔
نندی پور کا افتتاح بھی ہو گیا، منگلا کے قریب ایک نجی پاور پلانٹ بھی چل پڑا مگر اس کا بٹن دبایا تو پتہ چلا کہ صرف 84میگا واٹ دستیاب ہو سکے گی، جبکہ ملک کو تین سے پانچ ہزار میگا واٹ کی کمی کا مسئلہ در پیش ہے۔پیپلز پارٹی کے منصوبوں پر نظر ڈالی گئی تو یہ حقیقت کھلی کہ اگلے دو سے تین سال میں یہ سارے منصوبے چل پڑیں گے مگر وزیر اعظم کو نئی پریشانی یہ آن پڑی کہ اس بجلی کی سپلائی کے لئے سسٹم کہاں سے آئے گا۔ اب دو تین بر س میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ایک وعدہ تھا، وہ بھی ٹرپ ہو گیا۔
حکومت نے لوگوں کو مصروف رکھنے کے لئے ایک محاذ اور کھولا ہے اور وہ ہے بجلی چوری ۔جس بجلی چور پر ہاتھ ڈالیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ اپنا ووٹر ہے یا کسی اپنے ووٹر کا جاننے والا،اس چوری میں محکمے کو بھی لپیٹ میں لینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ملک میں اگر کوئی مضبوط لیبر فیڈریشن ہے تو وہ واپڈا کی ہے اور اس کے سربراہ انتہائی دیا نتدار اور درویش صفت انسان جناب خورشید احمد ہیں۔ واپڈا سے باہر بھی ان کی عزت ہے۔اگر بجلی چوری کے الزام میں کسی کو پکڑا جائے گا تو وہ خورشید صاحب کی یونین کا ہی کوئی میٹر ریڈر یا میٹر انسپکٹر ہو گا۔میرے تو تصور میں بھی نہیں آتا کہ خورشید صاحب کے سائے میں ایسا کام ہو سکتا ہے۔لیکن بڑے کارخانوں کی بجلی چوری میں ایسے چھوٹے عہدیداروں کا ہاتھ نہیں ہو سکتا، اس میں تو ایس ڈی او کیا ،ایکسین بھی ملوث نہیں ہو گا، ان سے بھی کوئی بڑا جس نے اپنی تقرری کے لئے دو تین کروڑ بھرے ہوں گے۔بہر حال شیر کو بجلی چوروں کے خلاف ہلہ ضرور بولنا چاہئے۔لیکن یہ نری بھڑوں کی کھکھر ہے ، اگر حکومت نے بجلی چوری ختم کر دی تو ان کے حامی صنعتکار،دکاندار اور ٹیوب ویل مالکان کیسے گزر بسر کریں گے۔اور کراچی کے کنڈے تو ہزار میل دور ہیں، وفاقی اداروں کی رٹ سے باہر۔ بجلی چوری کی پالیسی بھی کہیں ٹرپ نہ ہو جائے!
کل ہی میری ملاقات پروفیسر قطب صاحب سے ہوئی۔ موصوف ٹیکسٹائل انجنیئرنگ کے ماہر ہیں اور کئی یونیورسٹیوں میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دیتے ہیں، انہوںنے بتایا کہ ٹیکسٹائل مالکان کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ روزانہ دس گھنٹے لازمی کارخانہ بند رکھیں۔یہی بجلی بچا کر چند بڑے شہروں کو مہیا کی جارہی ہے تاکہ عام شہری سڑکوں پر نہ نکلیں۔انہوںنے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ آگے چل کر بجلی مہنگی کرنے کا منصوبہ ہے،جس سے لاگت بڑھ جائے گی۔ وہ ایک ایسی دکان پر بیٹھے تھے جہاں شلوار کرتے کے لئے تیار کپڑا خوبصورت پیکنگ میں دستیاب ہے۔ دکان کے مالک کا کہنا تھا کہ اس وقت انکے پاس سترہ سو سے ساڑھے سات ہزار تک کا سوٹ پیس دستیاب ہے ، اور یہ قیمت پرانی لاگت کے حساب سے ہے، موجودہ یاا ٓئندہ کی لاگت سے یہی کپڑا ڈیڑھ گنا مہنگا ہو جائے گا۔ابھی تو ہم ٹماٹروں کی قیمت کو روتے ہیں ، آگے چل کر پہناوے کے لئے تڑپیں گے، خاص طور پرسفید پوش طبقہ کاٹن کے لئے ترسے گا۔میں نے ان کے پاس وہ سی تھرو کپڑا بھی دیکھا جو خیبر پی کے میں وزیر اعلی پرویز خٹک زیب تن کرتے ہیں، اس کپڑے کا کمال یہ ہے کہ وزیر اعلی صاحب کے جسم کی ایک ایک رگ ،تصویر میں نمایاں نظر آتی ہے۔ شاید یہی کپڑا ،اس بادشاہ نے بھی پہن رکھا تھا جسے دیکھ کر ایک کم سن لڑکے نے شور مچا دیا تھا کہ بادشاہ ننگا ہے۔اور لوگوں کا ہاسہ نکل گیا۔
بجلی کا مسئلہ ایک طرف رکھتے ہیں، یہ تو موجودہ حکومت کی چھیڑ بن گیا ہے۔مگر حکومت کسی کام کے لئے بھی تیار نظر نہیں آتی۔صدر اس کو اپنی مرضی کا بنانا تھا، مگر اس کی نامزدگی میں کئی ہفتے لگ گئے۔ اعتزازاحسن کو جگت کسنا پڑی کہ اپنا امید وار نہیں ملتا تو ہمارے امیدوار پر متفق ہو جاﺅ۔
اب صدارتی الیکشن کی مقررہ تاریخ کے لئے حکومت تیار نہیں ہوئی اور الیکشن کمیشن تاریخ بدلنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ حکومت کاعذر کیا ہے کہ ارکان اعتکاف میں ہوں گے۔ واہ رے نیک پروین نمائندے ، باسٹھ تریسٹھ پر عین پورا اترنے والے، کچھ اعتکاف میں ، کچھ خدا کے گھر کے دیدار کے لئے عمرے پر اور باقی خدا کی شان دیکھنے کے لئے لندن اوراٹلانٹک سٹی میں۔صدارتی الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی کے لئے ن لیگ نے آخری سہارے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے۔اوراس کے حق میں عدالتی فیصلہ آ گیا۔
ویسے پاکستان کی خالق جماعت کوا تنا تو یاد ہو گا کہ 27 رمضان المبارک اگر ملک کے قیام اور آزادی کے حصول کے لئے رکاوٹ نہیں بنا تو اب صدارتی الیکشن میں کیا امر مانع تھا۔لاکھوں مہاجرین روزے کی حالت میں گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف چل دیئے تھے۔وہ کسی سپریم کورٹ میں نہیں گئے کہ آزادی کی تاریخ آگے پیچھے کر دی جائے۔
یہی حال بلدیاتی الیکشن کا ہے ، سپریم کورٹ نے ایک تاریخ مقرر کر دی ہے۔ مگر ہچر مچر جاری ہے۔ملک کی تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں نے بلدیاتی الیکشنوں سے حتی الامکان گریز ہی کیا ہے، یہاں بھی حکومت کے ارادے ٹرپ ہوتے نظر آتے ہیں۔
ٹرپنگ کی خرابی ہر قدم پر لاحق ہے۔اس کی وجہ سے کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا،ایک تقریر تھی ، سو اس کی باری نہیں آ ئی۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کہنے کے لئے کچھ ہو گا تو تقریر کروں گا، یہی اعتراف وہ تقریر میں کر دیتے کہ سارا مسئلہ ٹرپنگ کا ہے۔ مسکراہٹ بھی ٹرپ ہوچکی۔