62، 63 پر لازمی عملدرآمد، ہائیکورٹ نے صدارتی انتخاب رکوانے کیلئے درخواست نمٹا دی
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن اور مسٹر جسٹس شاہد بلال حسن نے صدارتی الیکشن رکوانے کےلئے دائر درخواست الیکشن کمیشن کی طرف سے صدارتی امیدوار کےلئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عملدرآمد لازمی قرار دینے کے باعث نمٹا دی۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے محض بیان میں کہا ہے کہ آرٹیکل 63 کا اطلاق ہو گا جبکہ صدارتی الیکشن رولز 1988 کے رول 5 میں ہونیوالی ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دیا۔ عدالت الیکشن کمیشن کے نمائندے کو آج ہی طلب کر لے اگر اُدھر سے جواب آئے کہ آرٹیکل 63 پر عملدرآمد ہو گا تو یہ درخواست آج ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیگی۔ مسٹرجسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ تو اکیڈمک بحث ہے صدر کے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراضات اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراض صرف امیدوار اُٹھا سکتا ہے ۔ اگر آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق نہ کیا گیا تو آئین کے آرٹیکل 41(6) کے تحت صدر منتخب ہونے کے بعد انتخاب کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ درخواست 2007سے زیر التوا ءہے عدالت نے بحث سننے کے بعد ڈپٹی اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے نمائندہ کو طلب کر لیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ درخواست جنرل پرویز مشرف کے الیکشن کے متعلقہ ہے وہ الیکشن ہو چکے ہیں اور آج کے الیکشن کیسے روکے جا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صدارتی الیکشن رولز میں 2007 میں ترمیم ہوئی تھی۔اب تمام امیدواران برائے صدرِ پاکستان سے ڈیکلیریشن مانگا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63 پر پورا اترتا ہے۔مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن نے الیکشن کمیشن کے نمائندے سے استفسار کیا کہ کیا صدرِ پاکستان کی نشست پر تمام امیدواران سے یہ ڈیکلیریشن لیا گیا۔ عدالت نے تفصیلی بحث سننے کے بعد متفرق درخواست نمٹا دی الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ صدارتی امیدواران کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق یقینی بنائے الیکشن رولز 1988ءمیں ترامیم کی قانونی حیثیت کے بارے میں عدالت سماعت بعد میں کریگی۔